روس یوکرائن جنگ نے عالمی سیاست کو یکسربدل کے رکھ دیا ہے۔ یوکرائن پر روسی حملے نے عالمی برادری کو کئی حصوں میں منقسم کردیا ہے۔ روسی حملے کے فورا بعد ایشیائی ممالک کی بڑی تعداد نے اس حملے کی مذمت تک نہیں کی۔ بلکہ بعض نے تو دبے لفظوں میں روسی جارحیت کی حمایت بھی کر ڈالی۔ لیکن وقتی طور پر امریکی صدر کا واویلا اور امریکی سفارتی مہم کے نتیجے پر یورپ اور امریکہ ایک ہی پیج پر نظر آئے۔ اس میں سب سے پہلے روس کے پڑوسی بیلا روس نے کسی حکمت عملی کا حصہ بننے کے بجائے روس کا کھلم کھلا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ہنگری کے وزیراعظم نے بھی پابندیوں سے جزوی طور پر علیحدہ ہونے کی بات کی، اب فرانس، جرمنی و دیگر ممالک میں سردی کی شدت میں اضافے کے بعد روسی گیس کی بندش نے توانائی کے بحران کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ برطانوی حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار روس کو قرار دے رہی ہے، امریکہ دبے لفظوں میں یوکرائنی حکومت کو روس سے بات چیت کا کہہ رہا ہے۔ ادھر ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ہندوستان،پاکستان، چائنہ و بعض دیگر ممالک امریکی موقف کے برعکس روس سے اپنے سیاسی ،سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں غیر معمولی اضافہ کررہے ہیں۔ حتی کہ سعودی عرب کے وزیراعظم محمد بن سلمان نے روس یوکرائن جنگ میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے بطور ثالث کام کیا اور سعودی عرب کے توسط سے دو طرفہ قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہوسکا۔ ترکی نے روس یوکرائن جنگ بندی اور یوکرائنی بندر گاہوں کی ناکہ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کی استنبول میں میزبانی کی۔ نومبر کے وسط میں افغانستان کے حوالے سے
ایک اہم اجلاس "ماسکو فارمیشن" کے نام سے دارالحکومت ماسکو میں کیا گیا جس میں چین، پاکستان، قازقستان، ایران، ہندوستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں نے شرکت کی۔ اس صورت حال نے امریکیوں کو زچ کردیا ہے امریکہ نے اپنے سیاسی موقف کی پسپائی کے مدنظر اپنے سی آئی اے چیف ولیم برونز کو روسی انٹیلیجنس چیف ناریشکین سے ملاقات کے لیے ترک شہر انقرہ بھیجا ہے۔ ادھر امریکی پابندیوں کے بعد منعقد ہونے والے جی 20 اجلاس کے موقع پر واشنگٹن میں تعینات روسی سفیر نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے۔سیاسی صورت حال میں یوکرائنی حکومت امریکہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے روس سے کسی بھی قسم کے مذاکرات اور بات چیت کے امکان کو مسترد کررہی ہے، لیکن عملا لوہانسک، ڈنباس اور دیگر یوکرائنی مقبوضہ علاقے جہاں روسی النسل لوگوں کی اکثریت ہے وہاں نہ صرف امن و امان کی صورت حال مستحکم ہے بلکہ وہاں مقیم لوگوں کی طرف سے روسی انتظامیہ کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کا نہ ہونا مقامی علاقوں میں روسی حکومتی رٹ میں اضافے کی بہت بڑی دلیل ہے، اس صورتحال نے روس کو سفارتی اور سیاسی محاذ پر نہ صرف بہت مضبوط کیا ہے بلکہ اسے عسکری میدان میں اپنی پیش قدمی بڑھانے کا حوصلہ بھی ملا ہے۔ سیاسی محاذ پر ہونے والی یہ پیش قدمی روس کے لئے تجارتی محاذ پر بھی اہم کامیابیاں لائی ہے اور ایک بڑی جنگ کا سامنا کرنے کے باوجود روسی معیشت کسی بڑے دھچکے کا شکار نہیں ہو رہی ایشیا سے ابھرنے والی حمایت اور یورپی یونین کے اتحاد کا بکھرتا ہوا موقف ، امریکہ ، یوکرین اور ناٹو کے لئے رسوائی اور پسپائی کا باعث بن رہے ہیں آئندہ صفحات میں ہم ان معاشی کامیابیوں کی بات کریں گے جو روس نے اس جنگ کے بعد سمیٹیں اور ان ناکامیوں کا احاطہ بھی کریں گے جو اس جنگ میں یورپ اور امریکہ کے حصے میں آئیں اور یوکرائن کو بھی بھگتنا پڑیں
روس یوکرین جنگ اور یورپی پچھتاوا
Dec 04, 2022