’’مادری نظام نہیں !‘‘
معزز قارئین ! ۔ مَیں نے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں اپنے 9 دسمبر 1991ء کے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ ماں کا رُتبہ بہت بلند ہے، لیکن ، ہمارے خاندان میں ’’ مادری نظام ‘‘ نہیں چلتا تھا ۔ تمام عمر والد صاحب ہی کا حکم چلتا رہا۔ دنیوی زندگی میں انسان باپ کے نام سے جانا ، پہچانا جاتا ہے ۔ فلاں ابنِ فلاں ۔ بی بی جی دوسری دُنیا میں چلی گئیں۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شناخت اور علامت بن کر … اُن سب کے ’’ بہتر مستقبل ‘‘ کی خاطر!۔
’’ مرنے والوں کی جبیں …!‘‘
مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ بدھ ازم‘‘کے بانی گوتم بدھ جی کی شادی ہُوئی تو، ایک سال بعد بیٹا ہُوا تو اُنہوں نے اُس کا نام ’’ راہول‘‘ رکھا۔ راہول کا مطلب ہے ’’ زنجیر ‘‘ … گوتم بدھ رات کے اندھیرے میں یہ زنجیر توڑ کر کھول کر نِروان کی تلاش میں نکل گئے تھے ۔ ہم مسلمان ہیں ، ہمارے یہاں جیتے جی زنجیروں کی کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط رہتی ہیں ۔
علاّمہ اقبالؒ تو زندگی کے بعد بھی اِس دُنیا اور اُس دُنیا کے لوگوں کے باہمی نظم و ضبط کے قائل ہیں ، فرماتے ہیں …
’’ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اِس ظلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں !
…O…
’’والدہ کے بعد والدین !‘‘
معزز قارئین!۔27/26 رمضان 1323ھ (15/ 16دسمبر1905ئ) میرے دادا جی رانا عبداُلرحیم چوہان کا سِکھوں کی ریاست نابھہ ؔمیں انتقال ہُوا تھا اور میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ؒ کا 26/27 رمضان20 14ھ (14/15 جنوری 1999ئ) کو لاہور میں وفات پا گئے تھے ۔ اُنہیں بھی میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کردِیا گیا ۔ اُس کے بعد (مَیں بی بی جی ؒ سے ہی نہیں ، اپنے ابو جیؒ )والدین سے بھی محروم ہوگیا لیکن، والدین کی دُعائوں ہی سے مجھے زندگی میں بہت کچھ ملا ہے ۔
مَیں کل کے کالم اور کئی کالموں میں تذکرہ کر چکا ہُوں کہ ’’ میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ’’ مجھے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے، خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔
’ ’ کشف اُلاسرار کا نسخۂ کیمیا ! ‘‘
حضرت داتا گنج بخش ؒنے اپنی تصنیف ’’کشف اُلاسرار ‘‘ میں فرمایا کہ ’’ اگر کوئی مسلمان ،مشکلات کا شکار ہو تو، وہ اپنے والد صاحب سے کہے کہ ’’ ابو جی !آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘ اور اگر والد صاحب حیات نہ ہوں تو، وہ خود اُن کی قبر پر جا کر ،اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ:
’’ یا اللہ !۔ میرے والد صاحب کے صدقے ،میری مشکلات دور کردیں، تو اللہ تعالیٰ وہ مشکلات دور کردیتے ہیں!‘‘۔
میرے والد صاحب ،جب تک سلامت رہے ، مَیں اُنہی سے عرض کِیا کرتا تھا کہ ’’ ابو جی !۔ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘۔
میرے والد ِ محترم ( اور والدہ صاحبہ ) کی دُعائوں سے بھی 1980ء کے اوائل میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز ،نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین الدین چشتی ؒ خواب میں میرے گھر تشریف لائے اورستمبر 1983ء میں جب مَیں خواب میں ،دلدل میں پھنس گیا تھا اور مَیں نے یا علیؓ کا نعرہ لگایا تو، پھر مجھے کسی روحانی قوت نے دلدل سے باہر نکال دِیا تھا اور میرے کانوں میں یہ آواز گونج اُٹھی کہ ’’ تم پر مولا علیؓ کا سایہ ٔ شفقت ہے !‘‘۔
’’فضلِ رحیمؒ ، مُحکم خانؒ!‘‘
معزز قارئین !۔ میرے والد صاحب ،رانا فضل محمد چوہانؒ اور میرے دادا رانا عبداُلرحیم خان چوہان ؒ اور میرے پردادا رانا مُحکم خان ؒکے ناموں کا ایک مصرع بنا کر مَیں نے ایک نظم لکھی تھی ، جس کے دو بند ملاحظہ فرمائیں …
بندۂ اِیمان و اِیقان!
مردِ جری، مردِ میدان!
صاحب عظمت، صاحب شان!
فضلِ رحیمؒ، محکم خانؒ!
… O …
خاک پائے، شاہِؐ مدینہ!
یادِ علیؑ سے روشن سِینہ!
خواجہ چشتیؒ سے فیضان!
فضلِ رحیمؒ، محکم خانؒ!
… O …
’’ ہر وقت میرے دِل میں ! ‘‘
معزز قارئین !۔ میرے والدین ہر وقت میرے دِل میں رہتے ہیں ۔مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’کاش میرے والدین اُس وقت بھی حیات ہوتے کہ ’’ جب20 فروری 2014ء کو ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے ملّی ترانہ لکھنے پر ،شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دیا تھا۔
یکم اکتوبر 2017ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ’’جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا!‘‘ کے عنوان سے امام حسین ؓاور شہدائے کربلاؓ کی منقبت شائع ہُوئی تھی تو راولپنڈی کے حقیقی درویش ’’تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ ، آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی ؒ(اب مرحوم) نے مجھے ’’حسینی راجپوت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا !‘ ‘ ۔
معزز قارئین ! جنابِ مجید نظامیؒ نے اپنی والدۂ محترمہ کو ’’ ماں جی ‘‘ کہہ کر مخاطب کِیا تھا ۔ اور جب مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ محترم نظامی جی ساڈے دیس پاکستان دِیاں ساریاں دیسی مانواں اِکّوں جہیّاں ہوندیاں نَیں! ‘‘
پھر مَیں نے اپنی بی بی جیؒکی پہلی برسی پر ’’ ماں ‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی تھی ، جو اِس طرح تھی / ہے …
’’ماں‘‘
…O…
اب کہاں صبر و سکُوں ، تاب و تَواں ، تیرے بعد!
بسکہ دُشوار ہُوا ، کارِ جہاں ، تیرے بعد!
…O…
تیری صِفتیں تھیں ، خُدا جیسی ، خُدا جانتا ہے!
کوئی دیکھا نہیں ، یکتائے زَماں ، تیرے بعد!
…O…
زندگی میں تھیں بہاریں ، تیری شَفقت ، کے طُفیل!
اب بہار آئے تو ، لگتی ہے خَزاں ، تیرے بعد!
…O…
تیرے ہوتے ہُوئے ، بھرپور تھی ، جھولی میری!
اب ہُوں ، محروم و رُسوائے جہاں ، تیرے بعد!
…O…
تیرا اِخلاص دَمکتا تھا ، سِتاروں ، کی طرح!
اب سِتاروں میں بھی ، وہ نُور کہاں ، تیرے بعد!
…O…
تیری برکت سے ، ہمیشہ ہی خُوشی ، پائی ہے!
اب خُوشی بھی ہے ، طبیعت پہ گراں ، تیرے بعد!
…O…
یُوں تو ہمدرد بھی ، مُشفقِ بھی اثرؔ کے ، ہیں بہت!
تجھ سا کوئی بھی ، نہیں پایا ، اے ماںؔ ، تیرے بعد!
…O…