لاہور ( سپورٹس رپورٹر) ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران سٹیڈیمز میں فیفا کی جانب سے شراط پر پابندی کے باعث بہت سی خواتین شائقین نے سٹیڈیم کو گھر سے زیادہ خوش آئند پایا۔ ایلی مولوسن، جو خواتین فٹ بال کے حامیوں کیلئے میچ ڈے کے تجربات کو بہتر بنانے کی مہم چلاتی ہیں، قطر کے دورے کے بارے میں بہت فکر مند تھیں کہ ان کے والد ان کے چیپرون کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مولوسن اور انگلینڈ کی بہت سی دوسری خواتین شائقین کا کہنا ہے کہ یہ ورلڈ کپ گھر پر کھیل کیلئے ایک نمونہ بنا سکتا ہے۔ 19 سالہ مولوسن نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہاں آنا میرے سسٹم کو ایک حقیقی جھٹکا لگا ہے۔ یہاں کوئی ہم پر سیٹیاں نہیں مارتا یا ہمیں جنسی طور پر ہراساں نہیں کیا جاتا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ورلڈ کپ کے انعقاد سے متعلق قطر کے قواعد پر وسیع پیمانے پر مغربی تنقید بے بنیاد تھی، بہت سی خواتین شائقین نے سٹیڈیم کو گھر سے زیادہ خوش آئند پایا۔ سونیا نیماس ایک اردنی خاتون اور تین بیٹیوں کی ماں ہیں جن کی پرورش فٹ بال کے دیوانے گھرانے میں ہوئی۔ فیملی کے پاس رات گئے میچ کے ٹکٹ ہیں اور وہ سٹیڈیم آنے کے بارے میں خوفزدہ ہے جہاں نشے میں دھت شائقین ممکنہ طور پر حاضر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ جب ہم دوسرے ممالک میں جاتے ہیں تو ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ ہمیں ان کے اصولوں پر عمل کرنے یا ان کی ثقافت کا احترام کرنے کیلئے کیوں کہا جا رہا ہے،ہم بس کرتے ہیں۔ ان کی بیٹیاں بھی ان کے ساتھ تھیں جنہوں نے اپنی اردنی شناخت کیلئے کیفیہ پہن رکھی تھی جبکہ میزبان ملک کے جھنڈے اور ٹوپیاں اٹھا کر قطر کیلئے اپنی حمایت کا اظہار کر رہی تھیں۔نیماس نے شراب سے چلنے والے تشدد کا حوالہ دیا جو گزشتہ سال انگلینڈ میں یورو 2020ء چیمپئن شپ کے فائنل کے دوران ویمبلے سٹیڈیم میں پھوٹ پڑا تھا۔ یہ وہ چیز نہیں ہے جو وہ قطر میں دیکھنا چاہتی ہے۔