سیاست میں عدم برداشت کی روایت معاشی صورتحال کو دن بدن گھمبیر بنا رہی ہے۔حالات ہیں کے قابو میں آنے کی بجائے ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان اگر چہ ایک سیاسی چال تو ہے ہی مگر اس چال سے ملک کو کیا اور کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اس کا ٹھیک طر ح سے حکمرانوں کو پتا ہے اور نہ ہی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان صاحب اسکا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ پورے سسٹم کو اپنے اقتدار کے حصول کی خواہش پر قربان کر دینا چاہتے ہیں ، یعنی اگر وہ وزیراعظم ہیں تو ٹھیک ورنہ انہیں حزب اختلاف میں بیٹھنا گوارا نہیں ۔ ملک کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا ہو گا۔ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں ، کا یہ طرز عمل کسی طور پر بھی سیاسی قیادت کے شایان شان نہیں ہو سکتا ۔ماضی میں اس قسم کی سیاست کی ملک و قوم نے بڑی بھاری قیمت چکائی ہے جبکہ ایک مرتبہ پھر سے ملک و قوم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ تحریک انصاف کی حالیہ سیاست کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک ناتجربہ کاروں کا ٹولہ ہے جو سب کچھ ملیامیٹ کر دینا چاہتا ہے ۔تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں صرف یوٹرنز اور سیاسی انتقامی کارروائیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، ایک کروڑ نوکریاں ملیں اور نہ ہی قوم کے ساتھ کای گیا پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ ایفا ء ہوا ۔خان کی حکومت میں منظر عام پر آنیوالے میگا سیکنڈلز جیسا کہ چینی ،گندم ، ادویات، بی آرٹی اور بلین ٹری کے حوالے سے ہونیوالی تحقیقات بارے کیا بنا ؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی کرپٹ افراد سے غبن کیا ہوا پیسہ نکلوایا جا سکا، جیسا مراد سعید 2018ء کے انتخابات سے قبل اپنے مخصوص اور بڑے دبنگ انداز میں کہا کرتے تھے کہ عمران خان اقتدار میں آئیگا تو دو دن میں 2ارب ڈالر ملک کے اندر واپس لائے گا۔ اسد عمر بطور وزیر خزانہ بن کر دودھ کی نہریں بہا دینگے ۔پھر تاریخ نے دیکھا اس ملک کی معیشت کیساتھ کیا سلوک کیا گیا ۔خان صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا میری سب سے بڑی غلطی تھا ۔
پھر اسکے بعد وہ آئی ایم کے سامنے لیٹ گے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے بھاری سود پر قرضوں کے حصول پر قوم کو مبارک بادیں دی جاتی رہیں۔ریاست مدینہ کا تذکرہ خصوصی طور پر کرنا چاہوں گا ، کیونکہ یہ ایسا نعرہ تھا جس نے عوام کے اندر حقیقی معنوں میں تڑپ پیدا کی کہ پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں پر چلانے کی بات کی گئی ہے ۔ مگر یہاں پر کیا دیکھتے ہیں وہی سودی معاشی نظام چل رہا ہے ۔ سرمایہ دار پہلے سے زیادہ بڑا ہوتا چلا گیا جبکہ غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں مرتے، قرضوں کی چکی میں پستے اور کہیں حالات سے مجبور ہو کر خودکشیاں کرتے رہے۔ توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ بھی دامن پر سیاہ دھبہ ہیں۔تحریک انصاف کے دور میںلاقانونیت کی بات کی جائے تو 10نومبر کو جرمن میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں قانون کی حکمرانی کا نفاذ نہیں کر سکا ۔ ساہیوال سانحہ آنکھوں کے سامنے سب سے پہلے آتا ہے ۔لاپتا افراد کا معاملہ جوں کا توں ہی رہا ۔صحافیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا ، اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا رویہ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے خان صاحب بر سر اقتدار آنے سے قبل رہائی کا وعدہ تو کر لیا ، مگر وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی ناکامیاں ہیں تو پھر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی پالیسیوںمیں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ماضی کے حکمرانوں اور تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کااگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو سب کچھ پہلے جیسا ہی نظر آتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے عوام کی زندگی میں کوئی فرق پڑا تھا اور نہ ہی حکومت میں رہتے ہوئے بہتری کے آثار نظرآئے ۔اب جبکہ عام انتخابات میں چند ماہ کا وقت رہ گیا ہے ،اور کیا ہی اچھا نہ ہو کہ، ملک میں افراتفری اور انتشار کی سیاست کو ترک کر کے عام انتخابات کی تیاری کو شروع کیا جائے۔ اگر ہم عوام کی بات کریں تو ہر طرف مسائل کی بہتات نے لوگوں کو نفسیاتی بنا نا شروع کر دیا ہے ہر 100میں سے 4افراد کسی نہ کسی قسم کے نفسیاتی مسئلہ کا شکا ر ہیں ۔