ایک مؤقر روزنامے کی ورق گردانی کرتے ہوئے نظریں ایک خبر پر ٹھہر گئیں۔سرخی نے مزید دلچسپی پیدا کی اور پوری خبر پڑھنے کو دل چاہا۔خبر کچھ یوں تھی کہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ ا ینیمل سائنسز پتوکی میں رہائش پذیر یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کے گھر میں ڈاکو داخل ہوئے۔لیڈی ڈاکٹرنے ڈاکو کی انگلی کودانتوں سے کاٹ کر ہاتھ سے الگ کردیااورڈاکو مال و اسباب لے کرفرار ہوگئے۔خبر تو انتہائی دلچسپ ہے پر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ ا ینیمل سائنسز پتوکی میں بھی حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیںاورڈاکو دندناتے پھرتے ہوئے ایک پروفیسر کے گھر میں گھس گئے۔اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پروفیسر جہاں رہتی ہیں وہاںپر’’ کرتا دھرتائوں‘‘ نے ان سمیت دیگر رہائشیوں کی حفاظت کا کوئی سامان تک نہیں کیا ہوا یونیورسٹی کی حفاظتی دیوار کئی جگہوں سے منہدم ہو چکی جو انتظامیہ کی توجہ چاہتی ہے ایسے واقعات تو ہونگے جب حفاظتی انتظام بھی نہ ہویہ سب کون کریگا ؟کیا وہ اس قدر بے پروا ہیںکہ ا ن کو کچھ خبر ہی نہیں یا پھر بالکل ہی ان کو اللہ کے سپر دکردیا ہے جو وہاں پرچور ڈاکو دندناتے پھررہے ہیں۔خیر یہ تو الگ اور قابل غور بات ہے لیکن پروفیسر نے کمال دلیری دکھائی کہ دانتوں سے انگلی کوکاٹ کر الگ کردیا گویا حفاظتی اقدامات کرنے والے تو کہیں نظر نہیںآرہے خود ہی ڈاکوئوں اور چوروں سے بچنا ہے تو اب ایسے کام کرنا ہوں گا۔یہ اگرچہ اپنی نوعیت کا الگ ہی واقعہ ہے لیکن یونیورسٹی کے سکیورٹی اقدامات کرنیوالوںکیلئے بھی ایک سبق ہے کہ کچھ توجہ اس پر بھی ہونی چاہئے۔
اسی قسم کا ایک اورواقعہ کچھ روز قبل بھی ہوا تھا۔ گوجرانوالہ کے علاقے گلشن کالونی میں یونیورسٹی کی طالبہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم سے اسلحہ چھین کر ڈکیتی کی کوشش ناکام بنادی تھی۔ بس سٹینڈ پر موجود طالبہ یونیورسٹی بس کا انتظار کر رہی تھی کہ دو ڈاکوؤں نے طالبہ سے پرس چھیننے کی کوشش کی جس پر طالبہ نے ڈاکو سے پستول چھین لی۔ طالبہ اور ڈاکوؤں کیدرمیان مزاحمت ہوئی اور شہری جمع ہوگئے جس کے بعد لوگوں نے ڈاکوؤں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔اس طالبہ کوبہادری پر انتظامیہ کی طرف سے انعام وکرام بھی دیاگیا۔ان واقعات کے بارے میں پڑھ کر ہر ذی شعور شہری کویہ ضرور کہنا چاہئے کہ جرات اور بہادری میں لڑکیاں کسی سے کم نہیں، انکی جرأت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ وطن عزیز کے کسی بھی شہر میں اب آزادی سے گھومنا ایک خواب ہی لگتا ہے اور ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ شہر میں ڈاکو راج ،ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔پولیس اگرچہ ٹیکنالوجی اور مختلف چیزوں سے لیس ہے اورمختلف فورسز بھی بنائی جاتی ہیںلیکن ’’بھوکے کو کیا چاہئے دو روٹیاں‘‘ کے مترادف بے روزگاری نے لوگوں کو اتنا مایوس اور مجبور کردیا ہے کہ وہ چھینا جھپٹی پر اترآئے ہیں۔تاہم دوسرا پہلو یہ ہے کہ شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے۔گھر سے نکلو آفس کے راستے، بینک سے گھر کا راستہ لو یا پھر منزل کوئی بھی ہو اگر راستے میں’’ڈاکو‘‘بھائی آگئے تو سمجھو خیر ہی نہیں ہے۔ارسطو نے اس بارے میںکیا خوب کہا تھا کہ جرم اور انقلاب دونوں ہی کی بنیاد صرف اور صرف غربت ہی ہے ،یہ بات سچ ہے جس میں کوئی دروغ کوئی نہیں ہے۔پاکستان میں مختلف ادوار میں کرائم کی شرح اس قدر بڑھتی گئی کہ حکومتیں بے بس دکھائی دیں۔ خاص کر بڑے شہروں میںتوجرم کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ بنیادی وجوہات میں بے روز گاری اور مہنگائی ہے جسکی وجہ سے ہمارا نوجوان جرم کی دنیا میں دھنستا جارہا ہے اورمستقبل تاریک کررہا ہے۔پولیس اس وقت آتی ہے جب ڈاکو فرار ہو جاتے ہیں اور آکر الٹے پلٹے سوالات کئے جاتے ہیں کہ لٹنے والا خود ہی کہتا ہے کہ بقول شاعر
میرا افسانہ جو غائب کر دیا ہے آپ نے
اس میں اپنا رنگ بھی کیا بھر دیا ہے آپ نے
اس کا کیا ہوگا یہ جو عنوان آدھا رہ گیا
یہ بھی لیتے جائیں جو سامان آدھا رہ گیا
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو جرم سے پاک کرنے کیلئے جرم کے اسباب کا سد باب کیا جائے جو ایک مضبوط،موثر ، کار آمد اور شفاف نظام عدل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر مختلف انصاف پسند اور غیر جانبدار اداروں کی طرف سے پختہ ارادہ کر لیا جائے، تو پھر رشوت خور، کرپٹ اور بد دیانت افراد، کھلے عام پھرنے اور بڑے بول بولنے کی بجائے، عوام سے منہ چھپاتے نظر آئیں گے۔
ایک اور جگہ پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
قانون جیسے کھو چکا صدیوں کا اعتماد
اب کون دیکھتا ہے خطا کا ہے رخ کدھر
ایک شاعرنے تو یہ تک کہہ دیا کہ
باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں
کتنی رفتار سے انسان بدل جاتے ہیں
چوریاں ہو نہیں پاتیں تو یہی ہوتا ہے
اپنی بستی کے نگہبان بدل جاتے ہیں