دو روز پہلے لکھا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے جو یہ کہا ہے کہ عمران خان نے کہا تواسمبلی توڑنے میں آدھا منٹ نہیں لگاﺅں گا تو اس آدھے منٹ کا مطلب چھ مہینے ہے اور کل تخت پنجاب کے ولی عہد نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کر دی بلکہ آدھے منٹ کے ترجمے میں ایک مہینے کا مزید اضافہ کر دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیںکہ جون کے بعد اسمبلی توڑیں۔ ”کل سات مہینے ہوئے‘ اب کھلے میں جو بھی قول و قرار دہرایا جائے‘ ”اندر کھاتے“ پرویزالٰہی نے یہی بات کی ہے اور علاوہ ازیں خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان‘ پرویز خٹک اور اسد قیصر بھی اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں اور عام ارکان اسمبلی بھی یہی استدعا بحضور شاہ دوراں کر رہے ہیں کہ حضور رحم کیجئے‘ اسمبلی مت توڑیئے۔
................
پرویزالٰہی کی اس عاجزانہ عرضداشت پر عمران خان نے کیا کہا ہوگا؟ خبر تو باہر نہیں آئی‘ لیکن یہی کہا ہوگا کہ اچھا تو پھر آپ کی طرف سے ناں ہی سمجھیں۔ بہرحال اس فارمولے کے مطابق جھگڑا صرف ایک مہینے کا رہ گیا۔ یعنی جولائی کا۔ پرویزالٰہی جون کے آ خر میں اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں‘ اگست میں ویسے ہی اسمبلیاں ٹوٹ جانی ہیں۔ جو بھی مذاکرات گویا ہونے ہیں یا ہو سکتے ہیں‘ ان میں یہ جولائی والا رپھڑ ہی زیربحث آئے گا۔
................
”تواڈے ولوں ناں ای سمجھئے“ کا منطقی نتیجہ پھر وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا کہ خان صاحب نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ اب یہ طعنہ دینے کی ضرورت نہیں کہ حضور ایک ہی رات پہلے فرما رہے تھے کہ مر جاﺅں گا ‘ ان چوروں کی حکومت سے مذاکرات نہیں کروں گا۔ یہ بات البتہ نوٹ فرمانے کی ہے کہ مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے خان صاحب نے چوروں‘ ڈاکوﺅں والے لاحقے سابقے استعمال نہیں کئے۔ یہ خیال جزوی طورپر درست ہے کہ پرویزالٰہی نے جو کہا‘ طرز عمل میں‘ یہ ریشم کی سی نرمی اسی کا نتیجہ ہے۔ جزوی طور سے مراد یہ ہے کہ اس میں ایک تہائی ہاتھ اس کا ہے۔ ایک تہائی 26 نومبر کی ”آخری کال“ والے جلسے کا ہے۔ اربوں کے اخراجات‘ بے پناہ انتظامات‘ دو صوبائی حکومتوں کے تمام تر سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال‘ میڈیا پر تاریخ ساز پراپیگنڈا مہم وغیرہ کے باوجود جتنے لوگ اس آخری کال والے جلسے میں شریک ہوئے‘ اتنے بلکہ زیادہ لوگ فضل الرحمن ایک دن کی تیاری سے جمع کر لیتے ہیں۔ اس کم گنتی نے شاہ دوراں کے اعصاب کو متاثر کیا‘ پھر 29 تاریخ کی ”تقرری“ نے بھی کچھ اعصاب شکنی کی۔ اس سب کے بعد وہ اس مقام پر پہنچے کہ چوروں‘ ڈاکوﺅں کی حکومت سے مذاکرات کی استدعا کریں۔ استدعا اس لئے کہ اسے پیشکش کہنا تو بہت ہی مشکل ہے۔
ساتھ ہی یہ جو الٹی میٹم انہوں نے دیا کہ دوسری آپشن اسمبلیاں توڑنے کی ہے تو اسے براہ کرم اسی الٹی میٹم کی دوسری شکل سمجھا جائے کہ ”ہماری مانگیں پوری کرو ورنہ ڈیش ڈیس ڈیش....“
................
مونس الٰہی یعنی ولی عہد تخت پنجاب نے ایک ستم اور یوں کیا کہ جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو باجوہ صاحب نے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر مجبور کیا تو دراصل ساتھ ہی وہ ایک متوازی پیغام خان صاحب کو دے رہے تھے کہ میاں آپ سے ہمارا کہاں کا عشق‘ کیسا پیار‘ وہ تو ہم باجوہ صاحب کی خاطر آپ سے آملے‘ ورنہ آپ سے اتحاد اور ہم کرتے؟ جانے دو میاں!
................
اس انٹرویو کا ایک فوری اثر یہ نکلا کہ باجوہ صاحب کے خلاف پی ٹی آئی کی طوفانی مہم یکایک ایسے تھم گئی جیسے بنا پیشگی نوٹس کے آنے والی آندھی تھما کرتی ہے۔ مہم اس لئے نہیں تھمی کہ خان صاحب نے کوئی آرڈر دیا بلکہ اس لئے کہ سوشل میڈیا کے ذمے دار خود ہی مخمصے میں پڑ گئے کہ اب کیا کریں۔ اب وہ نویں خبر کے با ضابطہ آنے کے منتظر ہیں۔ یعنی یہ کہ نویں خبر آئی ہے۔ باجوہ اپنا بھائی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نویں خبر سرے سے آئے ہی نہیں۔ یعنی
نویں خبر کوئی نئیں
باجوہ ساڈا کوئی نئیں
دن کچھ ایسے آئے ہیں کہ پی ٹی آئی والوں کو خود پی ٹی آئی والے اداس کرنے لگے ہیں۔ شوکت ترین ہی کو لیجئے۔ پی ٹی آئی کے مایہ ناز وزیرخزانہ یہی تھے۔ (غیر مایہ ناز تو اسد عمر تھے) انہوں نے فرمایا ہے‘ جھوٹ نہیں بولوں گا۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں!
ظاہر ہے پی ٹی آئی کے کارکن ہی نہیں‘ شیخ رشید بھی یہ ”انکشاف“ سن کر صدمے کی شدید لہر سے دہرے تہرے ہوئے ہونگے۔
وقت بدلنے کا اشارہ ہے۔ یہ وہی شوکت ترین ہیں جنہوں نے اپنے قائد کی ہدایت پر کے پی حکومت کے وزیرخزانہ سے مل کر ملک کو دیوالیہ بنانے کا ”فول“ پروف پلان بنایا تھا۔ جو پکڑا گیا تھا اور جو بعدازاں ”فول اینڈ فائنل“ ثابت ہوا۔ بہرحال معافی تلافی ہو گئی اور معاملہ بلائے بود رسیدہ ولے بخیرگذشت کی شکل اختیار کر گیا۔ شکر الحمداللہ۔
................
پی ٹی آئی کے پُرجوش اور عقیدت مند حامی عمران خان کو دیوتا تصور کرتے ہیں۔ ایسی عظیم ہستی جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ جو سب کو شکست دے سکتا ہے جس میں کوئی خامی نہیں۔ جو طاقت اور دہشت کا مجسمہ ہے جو بیک وقت اپالو بھی ہے‘ زیوس بھی‘ یوزیڈن بھی اور ایروز بھی۔ غرض دیوتاﺅں کا دیوتا۔ گویا مہادیو۔
ان سخت گیر عقیدت مندوں کو کل کی پریس ٹاک دیکھ کر شاک لگا جس میں ان کا دیوتا‘ اب تک کے چٹاں جیسے عزم سے دستبردار ہو کر حکومت سے مذاکرات کی اپیل کر رہا تھا۔
یہ سخت گیر عقیدت مند‘ ظاہر ہے کہ اب تک کی کہانی سے ناواقف ہیں۔ ان کے دیوتا کو دوسرے دیوتاﺅں نے جنم دیا۔ انہی دیوتاﺅں نے پارٹی بنا کر دی۔ لوگوں کو گھیر کر پارٹی میں شامل کرایا۔ انہی دیوتاﺅں نے جلسے‘ دھرنے کامیاب بنائے۔ مخالفوں کا صفایا کرکے ان کا راستہ بنایا‘ الیکشن جتوائے‘ حکومت بنوائی اور چلوائی۔ ہر خطرہ کو نمٹایا۔ اور پھر یہ دیوتا ایک ایک کرکے چلتے بنے۔ نئے دیوتاﺅں نے سب ناطے توڑ دیئے۔ عقیدتمندوں کا دیوتا قدم قدم پر دوسروں کا محتاج تھا۔ وہ نہیں رہے تو اب اولمپس پہاڑ پر یہ دیوتا اکیلا کھڑا ہے۔ اردگرد بے مہر برف ہے۔ دور دور تک۔