برادرم سہیل وڑائچ سے بہت عزت، احترام اور خلوص کا رشتہ ہے۔ ان سے تعلق دہائیوں پر محیط ہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کسی بھی ادارے میں ہوں کسی بھی عہدے پر ہوں ملک میں ہوں یا پاکستان سے باہر ہوں ان کے لیے فاصلے معنی نہیں رکھتے۔ وہ دوستی نبھانا جانتے ہیں۔ سہیل وڑائچ ایک کامیاب صحافی، لکھاری اور میزبان ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک بہترین انسان، دوست اور منتظم بھی ہیں۔ لکھتے ہیں تو سخت سے سخت بات کو سادہ الفاظ میں ایسے کرتے ہیں کہ پڑھنے والا لطف اندوز ہوتا ہے اور جس کے بارے لکھا جاتا ہے وہ کوئی کارروائی کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں پاتا۔ سہیل وڑائچ کا تعلق صحافیوں کے اس قبیلے سے ہے جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ہر بات لکھی اور نشر کی جا سکتی ہے لیکن یہ لکھنے اور نشر کرنے والے کی صلاحیت ہے کہ وہ حساس معاملات کو بھی کس مہارت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھتا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ سہیل وڑائچ کا پرانا تعلق ہے وہ جانتے ہیں کہ وڑائچ صاحب کے لیے ادارے، عہدے یا معاشرے میں حیثیت نہیں رکھتی بلکہ وہ ان کے لئے دوست اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہیں کام کر رہے ہیں یا فارغ ہیں، کسی عہدے پر ہیں یا نہیں ہیں سہیل وڑائچ کے لیے وہ دوست ہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہر چیز قربان کرنے، سب سے پہلے سب سے تیز اور نمبر ون کی کوشش میں تمام صحافتی اقدار و اخلاقیات کا قتل عام کر رہا ہے اس دور میں بھی سہیل وڑائچ تہذیب، اخلاق، شائستگی اور توازن رکھنے کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ صرف بہت باخبر ہی نہیں بہت بااثر بھی ہیں۔ کامیاب صحافتی زندگی اور بااثر ہونے کے باوجود اتنے ہی سادہ ہیں جتنا نظر آتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کا شمار ملک کے نامور صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے پروگراموں کے ذریعے، کالمز کے ذریعے اور کتابوں کے ذریعے اس ملک کی سیاست میں کھیلے جانے والے کھیل کو عوام کے سامنے رکھتے ہیں، بہت کڑوے سوالات نہایت سادگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ حساس معاملات پر بھی کمال مہارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنا پیغام پہنچا دیتے ہیں۔ اللہ نے انہیں بہت شاندار دماغ سے نوازا ہے اور وہ اسے بہت اچھے انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ ملک میں سیاسی نظام کے حوالے سے ہمیشہ بات کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے حوالے سے واضح رائے رکھتے ہیں۔ ان کی رائے اور خیالات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کی بائیو گرافی پر مشتمل ‘‘سہیل وڑائچ کہانی’’ طبع ہو کر منظر عام پرآ گئی ہے۔ یہ پیر محمد ضیاء الحق نقشبندی کی نئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں سہیل وڑائچ کی زندگی کے ہر گوشے کے ساتھ طریقے سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ سہیل وڑائچ کے حسب و نسب کی تفصیل و خاندانی پس منظر ، بچپن کی خاموشی ، لڑکپن اور نوجوانی کی شرارتیں، ابتدائی تعلیم ، سکول و کالج کے تجربات کو پیش کیا گیا ہے۔ دوران تعلیم وہ کس طلباء تنظیم سے منسلک رہے، جامعہ کا سحر کیسے طاری ہوا، لاہور کیسے آئے، ایف سی کالج میں ملازمت کیسے ہوئی وہ دور کیسا تھا اس کے بعد کامیاب صحافتی زندگی کے اتار چڑھاو، شب و روز پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
کالم نگاری کیسے شروع کی اس میدان میں اپنے آپ کو کیسے منوایا، اشاروں، کنایوں اور مختلف اصطلاحات سے کالم لکھنے کا انداز کیسے اپنایا؟؟ دوسروں سے افیئرز اور شادیوں کے سوالات کرنے والے سہیل وڑائچ نے بائیو گرافی میں بتایا ہے کہ شادی کہاں کی، شادی محبت کی میرج یا ارینج اس حوالے سے سوالات کتاب میں شامل ہیں اور ایسے تمام سوالات کے جوابات بھی سہیل وڑائچ نے اپنے روایتی انداز میں دیے ہیں۔ سہیل وڑائچ کا نکاح کس بڑے مذہبی و سیاسی لیڈر نے پڑھایا۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے‘‘ جیسا مخصوص لہجہ کیسے اپنایا اور متعارف کرایا ؟ زندگی میں ٹھہراو کیسے آیا سخت سے سخت بات نرم لہجہ میں کیسے بیان کر لیتے ہیں
کن بڑی شخصیات کے انٹرویوز کے دوران کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سہیل وڑائچ کی نظر میں سب سے اچھا انٹرویو کون سا ہے، چینل کیوں بدلا، دنیا کے کس بڑے صحافی سے متاثر ہیں؟ سیاست کی پکڈنڈیوں اور سیاست کی انہونیوں کو کیسے سمجھا ؟ کیسے علم ہو جاتا ہے کہ کون آرہا ہے کون جا رہا ہے ، میاں نواز شریف ان سے کبھی ناراض کبھی خوش کیوں رہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سہیل وڑائچ کو کس نام سے پکارتی تھیں ؟ آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور باقی سیاستدانوں سے ملاقاتوں میں کن امور کو زیادہ تر گپ شپ کا حصہ بناتے ہیں۔
نوابزادہ نصر اللہ خان آج بھی سہیل وڑائچ کی پسندیدہ شخصیت کیوں ہیں ؟ دیانت و امانت میں الشاہ احمد نورانی کو قدر کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں ؟ الطاف حسین نے بڑے پیمانے پر ان کے خلاف کیوں احتجاج کرائے؟
چوہدری ٹچ اصل میں کون ہے اور یہ اصطلاح کیسے ان کے علم میں آئی، عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں کا بار بار کیوں کہتے رہے؟ نگران حکومتوں کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ وہ کن باتوں کے پابند ہوتے ہیں؟ نگران حکومت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی ؟ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں پر ان کی رائے کیا ہے؟ کس جماعت کے بارے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور کس جماعت کو پسند نہیں کرتے ہیں؟ سیاسی جماعتوں کو سیاست کیسے کرنی چاہیے اور مذہبی جماعتوں نے سیاست میں آ کر کیا کھویا کیا پایا اس بارے سہیل وڑائچ کیا کہتے ہیں ؟ چاروں صوبوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاست میں فرق کیا ہے؟ پاکستان میں الیکشن کن خطوط پر ہوتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے لئے کن امور کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے؟ بین الاقوامی امور چین ، امریکہ ، افغانستان ، روس ، انڈیا ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کس وجہ سے خراب اور ٹھیک رہتے ہیں؟ عدالتی نظام میں خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں؟ عدالتوں سے مرضی کے فیصلے کیسے لیے یا کرائے جاتے ہیں؟ دفاعی اداروں کو کن امور پر حکومت کی بات مان لینی چاہیے اور کن ایشوز پر ان کو حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے؟ یہ سب سوالات ’’سہیل وڑائچ کہانی‘‘ میں شامل ہیں۔
یہ کتاب ہر تعلیم یافتہ فرد کے لیے ضروری اس لیے بھی ہے کیونکہ کسی بھی شخصیت کو پرکھنے کے اصول و ضوابط اور اسلوب و معیارات مہیا کرتی ہے۔
بلکہ کتاب میں نرم ، گرم ، پرلطف اور طنزومزاح پر مبنی کئی سوالات بڑے ہی عجز و انکسار کے پیرائے میں کیے گئے کہ وہ کون سی وجوہات و خوبیاں ہیں جو سہیل وڑائچ کو دوسرے صحافیوں سے ممتاز بناتی ہیں۔
‘‘سہیل وڑائچ کہانی’’ میں موصوف کی کتابوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مخصوص حالات میں خاص کتابیں کیوں لکھی ، ان کتابوں کی پذیرائی کیسے ممکن ہوئی اور بعض کتابوں کے دیگر زبانوں میں تراجم کرانے سے پڑھنے والوں کو سہولت دینے کا کیسے خیال آیا۔ ‘‘سہیل وڑائچ کہانی’’ میں چند منتخب کالم بھی شائع کئے گئے ہیں جن میں جنرل حمید گل کا خط عالم بالا سے ، دو چہرے ،سیاست کریں مگر اصلاحات بھی لے آئیں ،سرو اور گھاس ، تاریخ کا مقدمہ بنام محمود اچکزئی ، مجھے کورونا ہو گیا ، بے بے جی ، جہانگیر بدر بھولے تھے ، ابن بطوطہ دو م کا سفر نامہ ، میانداد کا راستہ ، میں مولو مصلی ہوں ، جب بادشاہ قید ہوا، ہمارے ہیرو بوڑھے کیوں ہیں،شامل ہیں۔ سہیل وڑائچ یہ منفرد خوبی بھی رکھتے ہیں کہ کوئی ان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ نہیں کر سکتا کہ ان کے اندر کیا ہلچل یا کیا طوفان برپا ہے۔ وہ کیا سوال کریں گے کیا جواب دیں گے، کیسا ردعمل دیں گے یہ اس وقت تک کوئی جان نہیں سکتا کہ جب تک سہیل وڑائچ بولنا شروع نہ کریں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی بات بھی نامناسب انداز میں بیان کی جائے تو اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور ایک معمولی بات بھی بہت اچھے انداز میں بیان کی جائے تو وہ لوگوں کے قلوب و اذہان کر اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ سہیل وڑائچ اس معاملے میں کمال کرتے ہیں وہ بہت اچھی بات بہت اچھے انداز میں بیان کر کے سب کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ کار، لکھاری، صحافی اور میزبان سہیل وڑائچ کو تو سب جانتے ہیں اور یہ اندازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اندر کا سہیل وڑائچ کیسا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وڑائچ صاحب ایک محب وطن پاکستانی، رحم دل انسان، آسانیاں پیدا کرنے اور مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرنے والے انسان ہیں۔ گذشتہ دنوں جب انہوں نے اپنے مقبول پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے ایک دن عبدالعلیم خان کے ساتھ گذارا اور عبدالعلیم خان فاونڈیشن کی سرگرمیوں اور فلاحی کاموں کو دیکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے کہا کہ اس عبدالعلیم خان کو تو میں نہیں جانتا تھا۔ عبدالعلیم خان فاونڈیشن کے کاموں کو دیکھ کر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ ہم سب کو اپنے ملک کے وسائل اور سہولیات سے محروم افراد کی خدمت کا موقع دے۔ ہم سب کو اپنے لوگوں کی مدد کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، ہم آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ عبدالعلیم خان جس لگن، دلجمعی اور خلوص کے ساتھ پاکستانیوں کی خدمت کر رہے ہیں ہم سب کو ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے۔ ہم کیوں لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں ہم خود کیوں آگے بڑھ کر کام نہیں کرتے۔
برادرم سہیل وڑائچ کے لیے میری دعائیں ہیں، نیک خواہشات ہیں۔ وڑائچ صاحب ایسے ہی مسکراتے ہوئے سادگی اور آسانی کے ساتھ سچ بولتے لکھتے رہیں اور مزید کامیابیاں حاصل کریں۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
٭٭٭٭٭