اے ڈی سی جی شبیر بٹ صاحب سے ٹی روم یا ادبی گوشہ قائم کرنے کے لیے کئی مہینوں سے مشاورت ہورہی تھی۔کچھ ہفتے پہلے بٹ صاحب نے بتایاکہ نہ صرف ڈی سی بلکہ کمشنر صاحب شیخ دین محمد پبلک لائبریری میں ادبی گوشہ اور چائے خانہ شروع کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔اسی سلسلے میں انہوں نے ہمیںڈپٹی کمشنر گوجرانوالا سے میٹنگ کے لیے ڈی سی آفس مدعو کیا۔وقت مقررہ پر ہم ڈی سی آفس پہنچے تو صاحب کے سٹاف نے ہمیں دیکھتے ہی کہا راجہ صاحب! کمیٹی روم میں ایک میٹنگ چل رہی ہے آپ بھی وہیں چلیں جائیں۔بیٹھتے ہی اندازہ ہونے لگا کہ اس وقت شادی ہال والوں کے ساتھ ڈی سی صاحب ایک انتہائی مسئلے کو لے کربات چیت کر رہے ہیں۔ڈپٹی کمشنرفیاض موہل بڑے شفیق اور سادہ لہجے میں حاضرین کو یہ نقطہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ ہمارے لوگ کیوں شادی کے کھانے میں زیادہ ڈشیں بنانے کو عزت سمجھتے ہیں، ۔ڈی سی صاحب کی باتیں سن کے یہی گماں ہوا کہ صاحب صرف ڈیوٹی سمجھ کے نہیں بلکہ معاشرتی برائی کے خاتمے کے لیے ہال میں موجود لوگوں سے درد دل کے ساتھ بڑے بھائی کی طرح کہہ رہے تھا کہ ہر صورت ون ڈش پابندی اور رات دس بجے تک شادی ہالوں میں تقریبات ختم کرنی ہوں گی۔ڈی سی صاحب بولے کہ ہمارے یہاں رواج بن چکا ہے کہ لوگ جانتے بوجھتے شادیوں میں کئی کئی کھانے تیار کرواتے ہیں اور جب انتظامیہ چیکنگ کرتی ہے تو پہلے عملے کورشوت دینے کی کوشش کرتے ہیں ایسا نہ ہونے کی صورت انتظامی آفیسرزکے خلاف مہم چلوائی جاتی ہے ۔ بے شک کسی انتظامی نمائندے کو دوران چیکنگ بدتمیزی کی اجازت نہیں ہے لیکن لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ حکومت نے شادی ہالوں کے لیے جو قوانین بنائے ہیں ان پر من و عن عمل کرنے سے ہی وہ جرمانے اور ہالوں کی بندش سے بچ سکتے ہیں۔ شادی ہال میں جانا ہو تو اکثر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ پہلے سوپ پیش کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد بھنا ہوا گوشت ،روسٹ چانپیں اور تکہ کباب مہمانوں کی تواضع کے لیے میزوں پر لگوایا جاتا ہے ۔ابھی مہمان بھنے گوشت کے مزے لے رہے ہوتے ہیںکہ مٹن کڑاہی کی خوشبو ہال میں پھیلتی محسوس ہوتی ہے ۔اب ٹکہ ٹک بھی مینو میں شامل کیا جانے لگا ہے ۔حلوہ جات ، مٹھائیوں اور بھاپ اڑتی چائے پیتے ہوئے اکثر پیٹ پر ہاتھ مارتے لوگ کہتے دیکھے ہیں کہ اج تے بس ہوگئی۔ شادی ہالوں میںلوگ مال مفت دل بے رحم کے مصداق کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔بڑی بڑی گاڑیوںمیں تشریف لانے والے ہوں یا موٹر سائیکل پر شادی ہال پہنچے والے کھانے کے معاملے میں ہر کوئی ایک سا ہی رویہ اپناتا ہوا نظر آتا ہے ۔پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ لوگوںکے اندر کی بھوک نہیں مٹ رہی۔بڑی بڑی پلیٹوں میں اتنا زیادہ کھانا ڈال لیتے ہیں کہ کیمرہ مین کو اپنی طرف آتا دیکھ کے منہ چھپانے لگتے ہیں اور پھر کافی مقدار میں کھانا اپنی پلیٹ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا یہ رزق کی بے حرمتی نہیں۔؟ کہیں تو ہمارے آس پاس بہت سے لوگ کھانے کے ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں اور کہیں ابھی ہم شادی ہال کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں کہ ویٹرز استعمال شدہ کھانے سے بھری پلیٹیں اٹھا کر کوڑے دانوں میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔رزق عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ’’عطا‘‘کے ہیں۔اسی لیے مال، علم،طاقت، وقت، اناج اور ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی اعتبارسے فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے ۔
صاحبو!لوکی کیہ کہن گے یہ وہ فقرہ ہے جس نے بہت سے سفید پوش لوگوں کو مقروض اور ذہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے ۔ دو تین عشرے پہلے تک شادیو ںکے موقع پر سارا انتظام گھروں میںہی ہوجایا کرتا تھا جس سے بہت سے سفید پوش لوگوں کا بھرم رہ جاتا تھا مگر اب شادی ہالوں میں ’پر ہیڈ‘ ادائیگی نے متوسط طبقے کو ایک عجیب میں مشکل میں ڈالا ہوا ہے ۔ اب شادی کی تاریخ رکھنے سے پہلے من پسند شادی ہال میں بکنگ کنفرم کی جاتی ہے۔ جہیز کی وجہ سے پہلے ہی لاکھوں سفید پوش ماں باپ کی بیٹیوں کے سر میں سفیدی آرہی ہے اوپر سے شادی کا کھانا لڑکی والوں کے لیے ایک الگ بوجھ بنادیا گیا ہے۔ علما کرام کو چاہیے کہ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ اسلام میں سینکڑوں لوگوں کے ساتھ بارات کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ بلکہ خاندان کے لوگوں کے ہمراہ نکاح کے بعد ولیمے کا حکم ہے۔آج بہت ضروری ہے کہ علما،اساتذہ اور دانشور سامنے آئیں اور لوگوں کو حقیقی معنوں میں خوشیاں منانا سکھائیں۔دکھاوے اور ظاہری نمود و نمائش کی بجائے خوشیوں میں اپنے رشتہ داروں،محلے داروں اور قرابت داروں کو شامل کرنا سیکھیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے لوگوں کو خوشیاں منانا بھی نہیں آتا ۔وہ کیا خوشی ہے کہ جسے مناتے ہوئے قانون کے شکنجے کا ڈر ہو اور خوشی منانے کے بعد انسان قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو۔ایک اچھی خبر پڑھی کہ ڈی جی فوڈ اتھارٹی پنجاب را جہ جہانگیر انور کی ہدایت پرپنجاب بھرکی 67 جامعات کے 197فوڈ پوائنٹس کا فوڈ آڈٹ کیا گیا۔ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ فوڈ آڈٹ کا مقصد جامعات میں ملنے والی اشیاء خوردونوش کی مکمل جانچ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی چیک کیا جارہا ہے کہ جامعات میں فوڈ ہینڈلرز کا میڈیکل ٹیسٹ کلیئر ہو اور وہ ٹرینڈ ہوں۔ خبر کے مطابق تمام فوڈ پوائنٹس کو آڈٹ کے مطابق بہتر ی کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔او ر مہلت ختم ہونے کے بعد قوانین کی خلاف ورزی پر لائسنس منسوخ کر کے کیفے،کینٹین کو بند کر دیا جائے گا۔بے شک پنجاب فوڈ اتھارٹی کا یہ ایک بہترین عمل ہے اور طلبا و طالبات کی ذہنی و جسمانی صحت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔