اب یہ پوچھ کر ہم بوڑھوں کا دل نہ دکھانا کہ مشیر کاظمی کون ہیں ؟ لو سنو ! ’’اخلاص اور افلاس کے سانچے میں ڈھلا ہوا انسان ، خود ایک نظم متحرک ، آواز میں جادو افکار میں گداز ، شاعری میں قرون اولیٰ کے حدی خانوں کی اڑانوں کا ہمہمہ۔ بلا شبہ مشیر کاظمی میدان رخت خیز کے حدی خانہ جدید تھے‘‘۔ یہ نثر خود بول رہی ہے کہ مجھے عظیم خطیب شاعر ادیب آغاشورش کاشمیری نے لکھا ہے۔ انہوں نے لفظوں میں مشیر کاظمی کی تصویر کھینچی ہے۔ لیکن جو نسل سرے سے اردو ہی نہیں جانتی وہ آغاشورش کاشمیری کو کیسے جانے گی؟ کالم نگار کی نواسی لاہور گرائمر اسکول کی ساتویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس کی ماں کا تعلق سول بیورو کریسی اور باپ کا عدلیہ سے ہے۔یہ اردو بالکل نہیں جانتی۔ جانتی بھی ہے تو صرف اتنی کہ ڈرائیور ، باورچی اور ہمیں اپنے مطلب کی بات سمجھا سکے۔ اردو کے بغیر اسے تاریخ پاکستان کیسے پڑھائی سمجھائی جا سکتی ہے ؟ اسے اپنا ملک پاکستان کیسے بتایا جا سکتا ہے؟ یہی ہمارا آج کا قومی المیہ ہے۔ ویسے نئی نسل کو سقوط ڈھاکہ جنرل نیازی کے لب و لہجے میں بتایا جارہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ انیس بیس کے فرق کے ساتھ واقعہ کربلا ہے۔ کربلا اگر بیس ہے تو سقوط ڈھاکہ بھی پندرہ سولہ سے ہرگز کم نہیں۔
مشیر کاظمی کی شاعری کے دو حوالے ہیں۔ پہلا کربلا ہے اور دوسرا پاکستان۔ شعیب بن عزیز کے بقول ، سقوط ڈھاکہ کے سانحہ میں ان کی شاعری کے موخر الذکر حوالے کو بھی دکھ درد اور احساس اذیت کی ایک ایسی شدت سے آشنا کر دیا ہے جسے ان کی رثائی (مرثئییوالی ) شاعری کا طرہ امتیاز سمجھا جا تا ہے۔ اب تو حکمران یوم پاکستان کی چھٹی یوں احسان کر کے دیتے ہیں جیسے پاکستان کا خواب اقبال? نے نہیں ان کے بڑوں نے دیکھا ہو۔ لاہور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سینٹ ہال میں یوم پاکستان کی تقریب تھی۔ اس زمانہ میں لاہور کی سماجی زندگی میں یہ تقریب بہت اہم ہوا کرتی تھی۔ اس تقریب میں مشیر کاظمی نے اپنی نظم ’’قبر اقبال? پر ‘‘سنائی :۔
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
قبر پر قوم ساری تھی نوحہ کناں
آنکھ سے آبگینے تھے پھوٹے ہوئے
چند ہاتھوں میں گلشن کی تصو یر تھی
چند ہاتھوں میں آئینے ٹوٹے ہوئے
سب کے دل چور تھے سب ہی مجبورتھے
بے کسی وہ کہ تاب نظارہ نہیں
اس لمبی نظم سے آخر میں ایک شعر،مشرقی پاکستان کے سانحہ کے انجام کی اس میں پوری کہانی ہے:
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہوگئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
نظم پڑھتے ہوئے کبھی کبھی تو مشیر کاظمی کی اونچی آواز بھی حاضرین کی سسکیوں میں دب کر رہ جاتی۔ سنانے والے نے یہ نظم رو رو کر سنائی اور سننے والوں نے رو رو کر سنی۔ مشیر کاظمی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان الگ ہوتے دیکھا تھا۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے بعد صرف چار سال زندہ رہ سکے۔ چوتھے برس سقوط ڈھاکہ کی تاریخ سے چار روز پہلے ہی جی ہار بیٹھے۔ اچھا ہوا۔ وہ کم از کم اس تکلیف دہ احساس سے بچ گئے کہ ہمارے اصلی اور نقلی حکمرانوں نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
صدر ایوب نے انہیں کہیں بھکر، لیہ میں چند مربعے دیئے۔ کسی دوست کو بتانے لگے۔ میں وہاں پہنچا۔ میرا خیال تھا کہ وہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت ہونگے۔ سرسبز باغات ہونگے۔ لیکن ادھر تو ہر طرف ریت کے ٹیلے تھے۔ ہر سو ویرانی تھی۔ بس اک اجاڑ سا منظر نامہ دکھائی دیا۔ میں گھبرایا ہوا لوٹ آیا۔ واپس آکر صدر ایوب سے کہا۔ مجھے کچھ نقد ہی دلوا دیں۔ میں کہاں زمینیں آباد کرتا پھروں گا۔ صدر ایوب کو اپنی دھرتی سے بھی عشق ہوگا تبھی تو آج کے جرنیلوں کی طرح ملازمت ختم ہونے کے ساتھ ہی دیار غیر میں جا آباد نہیں ہوئے تھے۔ وہ اپنے وطن میں جئے۔اپنے وطن میں مرے۔ لیکن انہیں زمیندارے سے عشق ضرور تھا۔ وہ مشیر کاظمی کو زمین کے فوائد سمجھانے لگے۔ لیکن شاعر لوگ شعری زمینوں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ان کی قافیہ ردیف والی زمینیں اور طرح کی ہوتی ہیں۔ آخر کار ایوب خاں نے انہیں روٹ پرمٹ سے نواز دیا کہ ان کا خرچ پانی چلتا رہے۔ ایسے درویش منش انسانوں کو فکر بھی صرف ایک پہر کی ہوتی ہے۔ وہ لمبی سوچ رکھتے ہی نہیں۔
فلمی شاعری میں ان کا ایک مقام تھا۔ وہ فلمی شاعری کے راگ ، گھاٹ اور قاعدے سے خوب آگاہ تھے۔ اردو ، پنجابی دونوں زبانوں میں ان کے لاجواب گانے موجود ہیں۔ فلم’’ دوپٹہ‘‘ کے بے مثال گانے ، نورجہاں کی سریلی آواز اور ان کی رسیلی شاعری سے مل جل کر ہی تخلیق ہوئے۔پھر ان دونوں کی کاوش ’’چاندنی راتیں ‘‘اور’’ تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے‘ ‘ پچھلے صدی کے بہترین گانوں میں سے ہیں۔ وہ ایک محب وطن مسلمان ، سچے عاشق رسول اور اہلبیت? تھے۔ ان کی بیشتر شاعری کا محور حب اہل بیت ? ہی ہے۔ صدیوں سے ہمیں شہباز قلندر کی درگاہ پر شاعر نذرانہ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں۔’’ لعل میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن‘‘جیسے سلام کی کسی اور کو مقبولیت نہیں مل سکی۔ ’’چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ پنجواں بالن آئی ہاں ‘‘کی صدا کے بغیر حضرت لعل شہباز قلندر کی بارگاہ کا تصور بھی ادھورا سا لگتا ہے۔ یہ سلام انہی کا تخلیق کردہ ہے۔ ان کا لکھا ہوا ’کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویر وے‘ایک رحجان ساز گانا ہے۔ پھر فلم انڈسٹری میں اس مضمون پر بہت سے گانے لکھے گئے۔ ملی نغمے، ترانے ، رثائی اور فلمی شاعری لکھنے والے اس شاعر کی کلیات میں صرف ایک غزل ہی دکھائی دی۔ اس کے ایک شعر میں ان کے دوستوں عزیزوں، اپنوں غیروں سے میل ملاقات، خلوص ، احساس ، دکھ درد کی پوری تصویر موجود ہے۔
آتے جاتے رہا کرو صاحب
آنے جانے میں کیوں کمی کرلی