آج اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سانحہ جنگ 1971ء اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ یحییٰ خان نے اپنے وقت کے شفاف ترین الیکشن کرائے۔ شیخ مجیب الرحمن کامیاب ہوئے۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ بغیر چوں چراں اقتدار اْسے منتقل کر دیا جاتا لیکن اس منتقلی سے مغربی پاکستان کے جمہوریت پسند سیاستدانوں کو اقتدار سے باہر بیٹھناپڑتا اور یہ چیز انہیں قطعا ًقبول نہ تھی۔ جب مجیب کو جیل سے چھٹروانے کے لئے تمام سیاستدان متحدتھے، اسے عظیم محب وطن قرار دیا تھا تو اب انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا تھا کہ اسے اقتدار دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ آخر کیوں؟ اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ یحییٰ خان اقتدار میں شراکت کی غرض سے انتقال اقتدار نہیں کرنا چاہتا تھا تو جمہوریت کے شیدائی سیاستدانوں کو کیا ہو گیا تھا۔ کیا انہوں نے مل کر کوئی ایسا مطالبہ کیا؟ کیا یہاں انتقال اقتدار کے لئے جلوس نکلے؟ کوئی دھر نے دیئے گئے یالانگ مارچ ہوئے؟ قطعا ًنہیں! بلکہ یہاں ایک پارٹی نے نعرہ لگایا’’ اْدھر تم اِدھر ہم ‘‘وہ کیوں؟ کیا جمہوریت کا یہی تقاضا تھا؟ پھر یہ کس نے کہا تھا کہ’’ ڈھا کہ جانے والوں کی ٹانگیں تو ڑ دی جائیں گی۔ ہم پشاور سے کراچی تک آگ لگا دیں گے‘‘۔کیا ڈھاکہ اس وقت تک پاکستان کا حصہ نہ تھا کہ محب وطن سیاستدانوں کو ان کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی؟مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا مشور ہ کس نے دیا تھا ؟ اس کارروائی کے بعد یہ کس نے کہا تھا’’ شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا ہے ‘‘۔
فوج تو اس کارروائی سے گریزاں تھی۔ فوج پْر امن اقتدار چاہتی تھی اس کا سب سے بڑا ثبوت مشرقی پاکستان کے وہ فوجی گورنر تھے جنہوں نے سیاسی حل کے لئے تمام تر کوششوں کے بعد استعفے دیئے۔ پہلے نمبر پر ایڈ مرل مظفر احسن اور پھر جنرل صاحبزادہ یعقوب خان تھے جنہوں نے پْر امن حل کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمارے معزز سیاستدانوں نے انہیں بے دست و پا کر دیا۔ اس سے زیادہ فوج کے خلوص اور جمہوریت پسند ہونے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ کیا کبھی کسی معززسیاستدان نے بھی اصولوں کی خاطر استعفیٰ دیا ہے؟ انہیں تو اصول اور جمہوریت محض اس وقت یاد آتے ہیں جب و ہ اقتدار میں نہیں ہوتے اور اپنے اقتدار سے محرومیت کا ذمہ دار بھی فوج ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ کاش ہمارے سیاستدان لالچ میں اس حد تک نہ جاتے۔ پھر فوجی کارروائی سے لے کر جنگ ستمبر تک کم و بیش 9 ماہ کا عرصہ حائل تھا۔ فوج سیاستدانوں کی طرح مختلف علاقوں میں جا کر عوامی جلسے نہیں کر سکتی۔ خطرناک حالات کے سیاسی حل نہیں نکال سکتی۔مشتعل جذبات کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔ یہ کردار سیاستدان ادا کر تے ہیں۔ اْس وقت ہماری رہنمائی کے لئے فخر ایشیا جیسے عظیم قائد موجود تھے۔ اگر فوج غلط کر رہی تھی تو ان کا فرض تھا کہ مغربی پاکستان میں فوجی کارروائی کے خلاف عوامی رائے متحد کرتے۔ مشرقی پاکستان جاتے۔ عوامی جلسے کرتے۔عوام کو سمجھاتے۔کیا کچھ ایسا ہوا؟۔ جو چند قائدین مجیب سے شراکت کا معاملہ طے کرنے وہاں گئے وہ بھی ڈھاکہ سے آگے نہ گئے۔ کیا یہ لوگ ذہنی طور پر اتنے مفلوج تھے کہ ٹوٹتا ہوا پاکستان نہ دیکھ سکے یا یہ شاید چاہتے بھی ایسا تھے کہ’’ اْدھر تم اِدھر ہم۔ ‘‘جذبات اپنی جگہ لیکن تاریخی واقعات تو تحمل اور بْردباری کا تقاضہ کرتے ہیں۔ محض چند جرنیل تو فوج نہ تھی۔ اگر یہ لوگ متحد ہو جاتے تو فوجی جرنیل چند منٹوں میں گھٹنے ٹیک دیتے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔ فوجی قیادت ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھنے سے قاصر رہی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔
یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس پر خاموش رہنا بھی جرم اور قوم سے غداری کے مترادف تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس واقعہ کے بعد ایک با تفصیل انکوائری ہوتی، بہت سے لوگ پھانسی چڑھتے، جیلیں کاٹتے لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ایک بے مقصدسی انکوائری ہوئی۔ کمال ہوشیاری سے اس سانحہ کے تمام بڑے کرداروں دونوں سویلین اور فوجیوں کو اس سے دْور کھا گیا اور پھرظلم یہ کہ یہ انکوائری بھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔کئی سال بعد جب بھارت نے یہ انکوائری شائع کی تو اس سے قوم کو پتہ چلا۔جناب بھٹو کی موت کے بعد اْن کے بیڈ روم کی الماری سے اصل کاپی ملی۔اْس میں سے بھی جناب بھٹو صاحب کے متعلق انکوائری کے صفحات غائب تھے۔ مزید المیہ یہ کہ یہ سب کچھ ہماری تاریخ کے سب سے بڑے جمہوری دَور میں اور سب سے بڑے جمہوری قائد کی حکمرانی میں ہوا۔
جنگ کے آخری دنوں میں جنگ بندی کا مسئلہ سکیورٹی کونسل میں پولینڈ کی طرف سے پیش کیا گیا۔ ہماری تاریخ کے عظیم ترین مد بر اور سیاستدان پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ڈھا کہ تقریبا ًڈوب چکا تھا۔ ذلت آمیز شکست سامنے نظر آ رہی تھی۔ پہلا کام تو جناب نے یہ کیا کہ وہاں تک پہنچنے میں ہی ساٹھ گھنٹے لے لئے کیونکہ جناب براستہ افغانستان اور اٹلی تشریف لے گئے اور یہ وہ وقت تھا جب ہر لمحہ پاکستان کے مقدر کے لئے اہم تھا۔ پھر اگر اس قرارداد کو منظور کر لیا جاتا تو علیحد گی پھر بھی ہو جاتی لیکن ہم شاید ذلت آمیز’’ سرنڈر‘‘سے تو بچ سکتے تھے یا یہ تمام معاملات کسی نہ کسی طرح باعزت طور پر طے ہو جاتے۔ لیکن اس قرارداد کو حقارت سے نہ صرف نا منظور کیا گیا بلکہ پھاڑ دیا گیا اور یوں ہماری ذلت آمیز’’ سرنڈر‘‘ اور فوج کی تضحیک یقینی بنا کر اس پر مہر ثبت کر دی گئی۔ ایسے نظر آتا ہے کہ یہ 1965ء میں شروع کئے گئے ایجنڈے کی تکمیل تھی۔یاد رہے کہ کسی بھی جنگ میں فوج کا’’سرنڈر‘‘فوج کی سب بڑی تذلیل ہے۔
میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین پیشہ ور منظم اور نظم وضبط کی پابند فوج ہے۔ اسے کسی قسم کا سیاست میں مداخلت کا شوق نہیں۔ آج اگر ہمارے سیاستدان فیصلہ کر لیں کہ وہ جمہوری اقدار کی مکمل پاسداری کریں گے اور سیاست سے عدم برداشت اور عدم تشدد کا کلچر ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں گے تو یقین رکھیں کہ فوج آپ سب سے زیادہ جمہوری روایات کی پاسداری کرے گی اور جمہوریت کی امین ہوگی۔ بار بار کی فوجی مداخلت کی روش ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ میری اپنے سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ ایک دفعہ صرف ایک دفعہ کوشش تو کریں۔ وہ دن قوم کا یوم نجات ثابت ہو گا۔ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو بنگلہ دیش سے ہی سیکھ لیں۔ آخر انہوں نے مارشل لاء سے کیسے نجات حاصل کی ہے؟
ع جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی۔
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا، تمہارا نہیں