قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں

Dec 04, 2023

ضرار چوہان

راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 
آئی ایم ایف کے ترجمان کی طرف سے بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے، اس طرح کی وضاحتیں انٹرنیشنل مانٹرینگ فنڈز کے سیکرٹریٹ سے معمول کے مطابق جاری ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی بابت یہ پریس ریلیز مجھ جیسے کروڑوں محبان پر بجلی بن کر گری۔ ہمارے سیاست دانوں نے ملک کا کیا حال کردیا ہے؟  یہ اب کس منہ سے فروری میں عام انتخابات کے لیے ووٹ مانگنے جائیں گے۔'' ترجمان آئی ایم ایف کاکہنا تھا کہ 30 جون 2024 تک پاکستان پر واجب الادا قرضہ 820 کھرب روپے ہو جائے گا'' رواں مالی سال پاکستان کے قرض میں 118 کھرب روپے کا اضافہ متوقع ہے، اس سال مالیاتی خسارہ 82 کھرب روپے سے متجاوز ہونے کا بھی امکان ہے (جو جی ڈی پی کے 7.8 فیصد کے برابر سمجھا جائے گا)
یہ ہے قائداعظم کا وہ پاکستان جس کے لیے  14 اگست 1947ء￿  میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور اسی آزاد وطن کے لیے برصغیر کے مجبور اور مقہور مسلمانوں نے آگ اور خون کے دریا بہائے… زیادہ دورنہیں ابھی کل کی بات ہے جب پاکستان 80 کی دہائی میں چین کو قرضے دیا کرتا تھا۔ یہی وہ پاکستان تھا جس کے پانچ سالہ اقتصادی اور معاشی منصوبوں کی نقل کوریا' سینگا پور اور ملائیشیاء￿  فخریہ کرتے۔ کویت کی ائیر لائن کو سہارا بلکہ اپنے پاؤں پر ہمارے جانبازوں نے کیا ،آج وہی پاکستان اور وہی پی آئی اے'ریلوے' پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے ''محبوب سیاست دانوں'' نے قوم کے چہروں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ میں کوشش کے باوجودیکم دسمبر 2023ء￿  کی سہہ پہر فیصل آباد میں رونما ہونے والے اس دلخراش واقعہ کو بھلا نہیں سکا۔ محنت کش نے قرضہ ادا نہ ہونے کی پاداش میں اپنی بیٹوں اور بیوی کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ چار قتل کس کی گردن پر جائیں گے؟ تین کروڑ ہمارے نوجوان بیروزگار ہیں جن میں ایک کروڑ گریجویٹس ہیں۔ گزشتہ ہفتے کانسٹیبل بھرتی ہونے والے امیدواروں سے آئی جی صاحب کی گفتگو پر مبنی وڈیو وائر ہوئی۔ آئی جی صاحب جس جس امیدوار سے اس کی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے جواب میں سول انجینئر' میکینکل انجینئرنگ' ایم اے انگلش' ایم فل یہاں تک کہ پی ایچ ڈی بھی کانسٹیبل ہونے پر مجبور دیکھے گئے!!
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتاؤں
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ ملک پر واجب الادا قرضے اور ان کی سروسز کے اخراجات غیر پائیدار سطح پر پہنچ گئے اور ان قرضوں پر محص سود کی ادائیگی 2.44 ارب ڈالرز پر پہنچ گئی ہے اور اگر ہم ملکی قرضوں پر ڈیٹ سروسنگ ک وبھی شامل کرلیں تو اس کا حجم 7302 ارب پر پہنچ گیا ہے جو ہمارے کل بجٹ اخراجات کا 50.5 فیصد ہے اور اس 30 جون 2024ء￿  تک اس کا حجم  8200  ارب پروے اور اگلے مالی سال تک  9224 ارب روپے پر پہنچ جائے گا۔ملک پر واجب الاد قرضوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1947  سے لے کر 2008ء￿  تک پاکستان پر مجموعی قرض محص 6127 ارب تھا اور آج بدقسمتی سے 6200 ہزار ارب پر پہنچا ہے اور اس میں غیر ملکی  قرضے کا حجم 130 ارب ڈالرز ہے اور قرضوں کی سروس کی ادائیگی 2000 ارب کی تشویشناک سطح پر پہنچ چکی ہے عالمی بنک کے مطابق پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جنہوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرضہ لے رکھا ہے۔ایشیائی ممالک میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ جون 2006ء￿  میں پاکستان کا قابل ادائیگی غیر ملکی قرضہ 36 بلین تھا جن پر قرض کی سروس کا بوجھ محض 1666 ملین ڈالرز تھا یعنی پاکستان درمیانے درجے کا  مقروض ملک تھا یعنی اسکا غیر ملکی قرضہ حاصل کرنے والے ترقی پذیر ممالک کے گروپ کے وسط میں نمبر آتا تھا مگر اس کے بعد عاقبت نااندیش اور کرپٹ حکمرانوں کی سنگدلی اور نااہلی سے معاشی حالات قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہم قرض تو دور کی بات اس پر سودادا کرنے کے لیے بھی غیر ملکی قرضوں کے محتاج ہیں زرمبادلہ کے ذخائر سعودی عرب ' چین اور گلف ممالک کے ڈیپازٹس میں بار بار توسیع پر کھڑے ہیں جب تک افغان وار رہی پاکستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے نرم شرائط پر قرضے اور امداد ملتی رہی بجائے ہم اس امداد کو ترقیاتی منصوبں پر لگا کر ملک کو اقتصادی طورپر  مضبوط بناتے مگر ہم اس فوجی اور اقتصادی امداد کو حلوائی کی دکان اور ناناجی کی فاتحہ سمجھ کر موج میلہ کرتے رہے۔حکمرانوں اور ریاستی عہدیداروں نے بیرون ممالک اربوں ڈالرز کے اثاثے بنائے اورعام لو گ ملکی بنکوں سے قرض لے کر گاڑیاں اور گھر بنانے لگ گئے 
 قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
 بقول فواد حسن فواد 86  فیصد ٹیکس ایف بی آر بغیر کسی کوشش کے وصول کرتا ہے محض286 ارب اکٹھا کرنے کے لیے اتنا بڑا سفید ہاتھی پالا گیا ہے حالانکہ کہ زرعی آمدنی اور تاجروں کی رئیل انکم پر ٹیکس لگا کر اور ادارے سے کرپشن ختم کرکے ایف بی آر پانچ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرسکتا ہے مگر کون ایسا کرے ؟ ہم یا تو قرض کے ہاتھوں ڈیفالٹ کر جائیں گے یا پھر کبھی چین' سعودی عرب اور امارات ہم پر رحم کھا کر ہمارے قرضے معاف کر دیں تو شاید کچھ گزارا ہو جائے وگرنہ اشرافیہ تو گدھوں کی طرح اس مردے کو نوچتی رہے گی۔ خبر یہ بھی ہے  ہپیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این نے انتخابی منشور سازی پر کام شروع کر دیا ہے۔ ملک او رقوم کو خوشحالی کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں، کوئی ان صاحبان حل وعقد سے پوچھے کہ آپ 20 اور 25 سال سے اقتدار کے جھولے جھول رہے  ہیں۔انتی طویل مدت میں آپ عوام کی تقدیر بدل نہ سکے تو آئندہ کیسے بدلیں گے؟ گزشتہ 18 اور 20 ماہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے والے اب پھر قوم کے ہمدرد بن کر سامنے آرہے ہیں۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ آج کا پاکستانی 500 روپے میں دو درجن انڈے خرید سکتا ہے نہ دو لیٹر پٹرول…!! میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ لوگ قرض لے کر بجلی کے بھاری بلز ادا کررہے ہیں۔  بیچارے غریب اور شریف شہری کہاں جائیں ،کس در پر دستک دیں اور کس کے سامنے جا کر اپنی بے بسی کا ماتم کریں؟ دو ہفتے قبل ایک دوست کے انکشاف  نے ذہن ماؤف کر دیا '' بولا ہمارے گھر میں  چھ ماہ سے (بیف )گوشت نہیں پکا'' اللہ اکبر!

مزیدخبریں