بھری بزم میں/نجم الحسن عارف
مال بچاؤ، آل بچاؤ کی پھبتیاں کسنے والے پھبتیاں کستے رہ گئے۔ سابق مرد حر آصف علی زرداری آل بچانے کے لیے زبر دست چال چل گئے۔ ان کی اس نئی چال نے بھی ثابت کر دیا کہ ثابت مرد حر ایسی سیاست بازی کسی اور کے بس کا کام نہیں۔ کئی دہائیاں پہلے ملک کے ایک نامی گرامی لکھاڑ نے آصف علی زرداری کے بارے میں ہی لکھا تھا ’اسے بزنس کرنا آتا ہے‘ لیکن بعد ازاں آصف علی زرداری نے ثابت کیا کہ صرف بزنس کرنا ہی نہیں آتا بلکہ سیاست کو بزنس اور جمہوریت کو بہترین انتقام بنا دینا بھی انھی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنی اسی سیاسی مہارت کے باعث سابق صدر آصف علی زرداری نے فروری 2024ء کے نزدیک پہنچ کر جس طرح اپنے اکلوتے صاحبزادے کو سیاسی خودکشی کے راستے پر چلنے سے بچانے کے لیے حکمت عملی بنائی ہے، وہ غیر معمولی شفقت پدری کی مثال ہے۔ یہ حکمت عملی کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے پہلے باپ بیٹے کے باہمی اختلاف اور لڑائی کا ماحول بنایا۔ ایک طے شدہ سکرپٹ کے مطابق اختلاف رائے کو نمایاں کرنے کے لیے گھر بلا کر انٹرویو دینے کا بھی اہتمام کیا۔ اپنے اپنے صحافی، اپنے اپنے اینکر اور اپنے اپنے میڈیا ہاؤسز والی سیاست صرف سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے ہاں برائے کار غیر سیاسی اور مکمل ’اے پولیٹیکل‘ پارٹی کے ہاں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بڑی کاروباری شخصیات اور اداروں کے ہاں بھی یہ چلن عام ہے۔ ایک مثال ملک ریاض کی بھی ہے۔ وہ جس کو چاہیں اپنا بنانے اور اپنے در پے بلانے میں کمال ملکہ رکھتے ہیں۔ ملک ریاض نہ صرف پاکستان کے آسمان صحافت کے ستارے ان زیر کمند آچکے ہیں۔
بات آصف علی زرداری کی ہو رہی تھی۔ انھوں نے کس طرح اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور اپنی جماعت پیپلز پارٹی کو سیاسی و انتخابی اعتبار سے مشکل ترین وقت میں سہارا دیا ہے اور چپکے سے دوبئی چلے گئے ہیں۔ ایک بات تو بلا تردید کہی جا سکتی ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی سیاسی سلطنت میں اپنی چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کی شناخت کو مختلف رکھنے کا ہمیشہ بہت خوبی سے اہتمام کیا۔ کہا جا سکتا ہے آصف علی زرداری نے اپنی اس نئی حکمت عملی میں میاں نواز شریف کو ہی ’رول ماڈل‘ بنایا ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت نے پی ڈی ایم حکومت کے جانے کے بعد اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ فروری 2024ء میں اگر انتخابات ہو بھی گئے تو ان میں ان کا حصہ اس قدر طے شدہ نہیں ہوگا جتنا کہ میاں نواز شریف کا ہے۔ بلا شبہ پچھلے ایک سال سوا سال کے دوران مسلم لیگ نواز کے بطور مقبول عام جماعت ’پلیٹ لیٹس‘ انتہائی نیچے گر چکے ہیں۔ اس کے باوجود نواز لیگ ماشاء اللہ پھر امید سے ہے۔ ’باپ ‘ کا اس طرف مائل ہونا اسی امر کا اشارہ ہے۔
ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کی نوخیز سیاست کے لیے ہی ایک راستہ تھا کہ وہ اگلے پانچ دس سال بعد کی سیاست اور انتخابات کو ذہن میں رکھ کر اپنی ’پوزیشننگ ‘ کرتے۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے ایک چیز یہ ضروری سمجھی گئی کہ ملکی سیاست اور بیانیے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکے نوجوانوں کے ساتھ خود کو جوڑنے کے لیے اپنے پرانے بابوں کو سیاسی معاملات سے دور کرنے کی بات کریں۔ بلاول کی خود کو نوجوانوں کے لیے سیاست میں جگہ بنانے والے سیاستدان کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش در اصل نوجوانوں میں اپنی جگہ بنانے کی ایک سعی ہے۔ جن بوڑھے سیاستدانوں سے بیزاری کا بیانیہ بلاول بھٹو زرداری نے چنا ہے یا ان کے لیے گھڑا ہے، وہ اگلے پانچ دس برسوں میں سیاست کے میدان میں ویسے ہی کم اور کم اہم ہو چکے ہوں گے۔ ان کی جگہ وہی نوجوان ہوں گے جن کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے بظاہر نعرۂ مستانہ بلند کردیا ہے۔ یہ نوجوان آج عمران خان اور ان کے تصورات کے عشق میں مبتلا ہیں لیکن اگلے پانچ دس برسوں میں کچھ تو تبدیلی کا امکان ہوگا۔ اسی کی امید کرتے ہوئے نوجوانوں کا مقدمہ پیش کرنا بلاول بھٹو کے لیے رکھے گئے کردار میں شامل کیا گیا ہے۔
آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے کو بھی یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں چونکہ پیپلزپارٹی کا حصہ بہت کم ہے۔ اس لیے آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے کو فروری 2024ء کے مجوزہ عام انتخابات کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کر کے ناکامی کا دھبا کیوں لگوائیں؟ انھوں نے ایک طرف یہ تاثر دیدیا ہے کہ وہ اور ان کا بیٹا وزارت عظمیٰ کے لیے فی الحال دلچسپی نہیں رکھتا۔ بقول آصف علی زرداری کے ’ابھی بلاول بھٹو کو تربیت کی ضرورت ہے۔‘ انگور کھٹے والا محاورہ شاید یہاں اتنا موزوں نہیں، نوشتۂ دیوار کی اہمیت زیادہ ہے۔ سابق صدر کی اس حکمت عملی کے بعد کسی وقت یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بلاول نوجوان ہے اور نوجوانوں کا ہی قائد ہے۔ اس لیے وہ جب بھی آئے گا نوجوانوں کے قائد کے طور پر آئے گا۔ گویا وہ عمران خان کی جگہ خالی ہونے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کو اپنے موجودہ مرشد کی جگہ کسی نئے قائد کو مرشد بنانا پڑا تو بلاول بھٹو زرداری ایک اہم چوائس کے طور پر موجود ہوں گے۔ زرداری صاحب سے یہ سوچنے کا حق چھیننے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔
آصف علی زرداری بلاول کو ایک اور چیز کے ساتھ بھی’ٹیگ‘ کرنے کی کوشش میں ہیں کہ آصف علی زرداری جس طرح مفاہمانہ اور عملیت پسندی کی سیاست کے دھنی ہیں۔ اس لیے یہ تاثر دیا جائے کہ بلاول زرداری نے مزاحمتی سیاست اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے بارے میں الگ راستہ لیا ہے۔ یقینا مزاحمتی لبادے کی سیاست کا اپنا ایک ووٹ بنک ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ مزاحمت اور مفاہمت کا ملغوبہ ہی اقتدار تک لے جاتا ہے وگرنہ جیل ہی جیل، اذیت ہی اذیت اور بدنامی ہی بدنامی ملتی ہے۔ اتفاق سے تمام جمہوری قائد اس معاملے میں ایک ہی حمام میں رہے۔ یہ آغا حشر مرحوم سے متاثر ہونے والی بات نہیں۔ کام ہی اس طرح چلتا ہے کہ ہر طرح کا مکالمہ ادا کیا جا سکے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس کی تربیت دے کر طاق کرنا ایک باپ ہونے کے ناتے سابق صدر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے درمیان ظاہری اختلاف، بلاول بھٹو زرداری کو مزید تربیت کی ضرورت کا کہہ کر ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے ممکنہ عتاب سے بھی بلاول کو پیشگی بچا لیا ہے کہ ’بچہ‘ ہے، ابھی ’ناسمجھ‘ ہے۔ ایسا ہی کچھ ایک بار سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کرسی اقتدار پر ہوتے ہوئے مریم نواز کے فوج سے متعلق جارحانہ بیانات پر کہا تھا کہ ’وہ ذرا جذباتی ہو جاتی ہیں۔‘ سیاست کی ملکۂ جذبات۔
سابق مرد حر کی یہ احتیاط پسندی اور سلامت روی پر مبنی حکمت عملی ان کے جہاندیدہ ہونے کی ایک اور مثال ہے۔ وہ حقیقتاً غیر معمولی عملیت پسند سیاستدان ہیں۔ ان کی اسی سوچ کے نتیجے میں ان کی جماعت محفوظ رہ سکتی ہے۔ زیادہ برے انتخابی نتائج آنے پر یہ بھی کہا جاسکے گا ’باپ بیٹے‘ کے اختلاف کی وجہ سے پارٹی انتخابی مہم میں اس طرح متحرک نہیں ہوسکی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ’ویلڈن زرداری صاحب، ویلڈن!‘ یہی راستہ آج کی سیاست میں آل بچانے کا ہو سکتا تھا۔ اسی کے نتیجے میں ایک بار پھر پی ڈی ایم ایسی جگاڑ لگانے کا راستہ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ’اینٹ سے اینٹ بجانے‘ کا دور نہیں۔ پارٹی سیاست اور خاندانی سیاست کی ایک ایک اینٹ بچانے کا دور ہے۔