حمزہ چودھری
سموگ پر قابو پانے کو پہلی ترجیح نہ بنانا گیا تو کم ازکم لاہور شھر تو رہائش کے قابل نہیں رہے گا - نومبر کے مہینے میں زہریلی فضا نے لاہوریوں کے چھکے چھڑا دئیے -یہ مسئلہ صوبے کی سطح پر بھی بہت بڑھ چکا ہے- اس بار ملتان میں فضائی آلودگی نے 1635 کی ناقابلِ یقین حد عبور کی تھی۔ یہ اعداد و شمار اس سنگین ماحولیاتی مسئلے کی شدت کو واضح کرتے ہیں، جس سے پنجاب کے عوام دوچار ہیں۔
پنجاب میں سموگ کا بحران صرف ماحولیاتی تباہی نہیں، بلکہ حکومت کی نااہلی اور ترجیحات کی غلط سمت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جب آلودگی کی سطح خطرناک حدوں کو عبور کر چکی ہے اور لوگوں کو صحت کے حوالے ایمرجنسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہیں حکومت کی غیر مو¿ثر حکمتِ عملی نے معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ موجودہ حکومت، جو بہتر گورننس اور اصلاحات کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی، ماحولیاتی مسائل کے معاملے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سموگ کا مسئلہ نیا نہیں ہے، لیکن ہر سال موسمِ سرما میں دوبارہ پیدا ہونے والے اس بحران کے باوجود حکومت نے کوئی جامع حکمتِ عملی نہیں تیار کی۔ سموگ جیسے مسئلے کے لیے مختصر مدتی اقدامات جیسے سکول بند کرنا، مارکیٹوں کے اوقات محدود کرنا، اور کارخانوں کو عارضی طور پر بند کرنا، صرف وقتی ریلیف فراہم کرتے ہیں۔ لیکن عوام کا سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ سالہا سال سے موجود ہے تو حکومت نے اس کا مستقل حل کیوں نہیں نکالا؟
یہ سموگ محض ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ انسانی غلطیوں، انتظامی کوتاہیوں، اور بیڈ گورننس جیسے عوامل کے پیچیدہ امتزاج کا نتیجہ ہے۔ موسمِ سرما میں درجہ حرارت کی کمی اور ہوا کی رفتار کم ہونے سے آلودگی زمین کے قریب رہتی ہے۔ یہ موسمی حالات سموگ کو مزید بدتر بنا دیتے ہیں۔ پنجاب کے دیہات میں، جہاں کھیت ایک زمانے میں خوشحالی کی علامت ہوا کرتے تھے، اب وہاں سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہیں۔ کاشتکار فصلوں کی باقیات جلانے پر مجبور ہیں تاکہ اگلی فصل کے لیے زمین تیار ہو سکے۔ یہ آگ فضائ میں خطرناک آلودگی پیدا کرتی ہیں جو پورے خطے کی ہوا کو زہریلی دھند میں بدل دیتی ہیں۔ لاہور، ملتان، اور فیصل آباد جیسے شہروں میں کارخانوں اور گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ کارخانے اور گاڑیاں فضائ میں زہریلی گیسیں چھوڑتی ہیں، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
حکومت کی طرف سے اکثر پڑوسی ممالک، موسم کی تبدیلی، یا عوام پر الزام عائد کیا جاتا ہے، لیکن اپنی کوتاہیوں کو قبول کرنے میں ناکامی واضح ہے۔ کارخانوں سے زہریلے دھوئیں کا اخراج اور فصلوں کی باقیات جلانے جیسے مسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ قوانین میں بھی یہی ہے کہ جو بھی فصل جلائے اس پر جرمانہ عائد کر دیا جائے، یہ بھی زیادتی ہے۔ کسانوں کے لیے متبادل وسائل فراہم نہ کرنا اور آلودگی پھیلانے والے کارخانوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنا حکومت کی غفلت کا مظہر ہے۔
سموگ کا انسانی صحت پربہت گہرا اثر پڑتا ہے، خاص طور پر بچوں، بزرگوں، اور کمزور صحت والے افراد پرسموگ کے باعث فضائ میں موجود PM2.5 اور PM10 ذرات پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ طویل عرصے تک اس آلودگی میں سانس لینے سے دمہ اور دیگر سنگین بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ سموگ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس زہریلی دھند کا مستقل رہنا ایک بے چینی اور بے بسی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ سموگ پنجاب کی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، جس سے صحت کا نظام دباو¿ میں ہے۔ حکومتی ناکامی نے عوام کو سخت مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے بیمار بچوں کے علاج اور دیگر مسائل کے درمیان گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے صحت کے اخراجات اور کام کے دنوں کے نقصان نے عوام کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔
دنیا سموگ کے علاج کے لیے جدید طریقے ڈھونڈ رہی ہے، جیسے فضائی صفائی کی ٹیکنالوجیز، پائیدار زرعی طریقے، اور سبز توانائی کے منصوبے، لیکن ہم اب بھی غفلت کا شکار ہیں اور سموگ کو معمول کا موسمی مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کر رہے ہیں۔ چین اور بھارت جیسے ممالک نے فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے سخت پالیسیوں، مشینی زراعت کے لیے سبسڈیز، اور عملی طور پر میں فضائی معیار کی نگرانی کے نظام نافذ کرنا شروع کر دیے ہیں، لیکن پاکستان میں اب تک اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ فصلوں کو جلانے کا مسئلہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا بھر میں بایو-ڈیکمپوزرز، اسٹبل ملچنگ، اور انرجی کنورڑن پلانٹس جیسے حل زیرِ استعمال ہیں، لیکن پاکستان میں ایسے منصوبے وسیع پیمانے پر نافذ نہیں کیے گئے۔ ہمیں تحقیق میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور کسانوں کو ایسے متبادل فراہم کرنے چاہییں جو ان کی فصلوں کو سموگ میں اضافے کا باعث بننے سے روک سکیں اور ہماری ہوا کو صاف رکھ سکیں۔ حکومت کو سموگ کے بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اثرات کم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہییں۔ طویل مدتی حل جیسے اخراجات میں کمی، فصلوں کو جلانے کی روک تھام، اور صاف توانائی کو فروغ دینا ضروری ہیں، لیکن فوری اقدامات بھی اہم ہیں۔ ایک ممکنہ قدم یہ ہو سکتا ہے کہ اگر قدرتی بارش نہ ہو تو سموگ کے شدید مہینوں میں مصنوعی بارش کو یقینی بنایا جائے۔ مصنوعی بارش، جو کلاو¿ڈ سیڈنگ کے ذریعے ممکن ہوتی ہے، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں عارضی طور پر فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے مو¿ثر ثابت ہوئی ہے۔ اگر اگلے سال تک حکومت سموگ کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتی، تو اسے ان مہینوں میں کم از کم دو مصنوعی بارشوں کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ یہ قدم مستقل حل نہیں، لیکن خطرناک فضائی معیار سے جانیں بچانے اور صحت کے بحران کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔