تحریر محمد ارشد
mediacares@gamil.com
یہ دس نومبر کی سرد شام تھی جب میں نے پہلی بار باکو کے حیدر علیوف انٹرنیشنل ایئرپورٹ باکو پر قدم رکھا۔ باکو آذربائیجان کا دارلحکومت یہاں میری آمد کی وجہ اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے ہونے والی ایک کانفرنس تھی۔ موسمیات میں تغیر و تبدل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی انسانی اور املاک کی تباہی سے بچاو¿ کے طریقے ڈھونڈنے کے لئے ہونے والی کانفرنس۔ میں اسی میں شرکت کے لئے یہاں آیا تھا میں پاکستان کے وفد میں شامل دیگر تیکنیکی مندوبین کے ہمراہ پبلک ریلایشنز پریکٹیشنر کو طور پر شریک تھا۔
جونہی میں ایئرپورٹ سے باہر آیا شہر کی رونق اور ثقافتی رنگا رنگی نے مجھے سحر زدہ کر دیا۔ باکو میں مختلف زبانوں اور ثقافت کے امتزاج کے باعث میرے ذہنی ابلاغی رجحان کو کچھ چیلنجز درپیش ہوئے ، لیکن میری تجسس کی عادت نے مجھے اپنے ارد گرد کے رویوں کو کھلے ذہن سے مشاہدہ کرنے پر آمادہ کر لیا تاکہ میں اس نئے ماحول سے ہم آہنگ ہو سکوں۔
باکو ، بیک وقت گرم و سرد ہواو¿ں کا حامل منفرد خطہ ، اپنی فضائ اور ماحول کی طرح یہاں کے رہنے والوں کے متنوع مزاج ، پرجوش و مہمان نواز رویوں کا حامل ایک متحرک بین الاقوامی شہر ہے۔ خصوصاً پاکستانیوں کے لئے تو آذریوں کے دل ہر وقت فراخ اور آنکھیں فرش راہ رہتی ہیں۔ اور ہم نے شہر میں قدم رنجا ہوتے ہی اس گرم جوشی کو محسوس بھی کیا۔ کوپ 29 کانفرنس میں ماہرین و تیکنیکاروں پر مشتمل دنیا بھر سے آئے اٹھہتر ہزار (78،000) بین الاقوامی مندوبین شریک تھے۔
کانفرنس میں شامل پروفیشنلز اور مہمانوں کے درمیان ایک طبقہ اور بھی موجود تھا جس نے تھکا دینے والی کئی ہفتوں پر مشتمل اس پوری کانفرنس کے دوران میری توجہ اپنی جانب مبذول کئے رکھی۔ یہ طبقہ وہاں موجود ان نوجوانوں پر مشتمل تھا جنھیں رضاکار کا نام دیا گیا تھا۔ یہ رضاکار وہاں شریک بین الاقوامی مندوبین کے ساتھ کوآرڈینیشن کے لئے تعینات کئے گئے تھے۔ان کی تعداد 3,000 بتائی گئی۔
یہ رضاکار انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ کانفرنس میں شریک غیر ملکی مندوبین کی زبانوں میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے اور اس میں ابلاغ بھی کر رہے تھے۔
رضاکاروں کی ذمہ داری صرف مندوبین کو رہنمائی فراہم کرنا نہ تھی بلکہ وہ مختلف ثقافتوں کے درمیان ابلاغی پل کا کام بھی کر رہے تھے۔ مختلف زبانوں کے درمیان مربوط ابلاغی تعلق کو یقینی بناتے ہوئے وہ کانفرنس کے دوران اس کے مقاصد اور اس کی اہمیت سے بھی واقف نظر آئے جسے وہ اپنے ابلاغی رویے سے اجاگر کرتے دیکھائی بھی دیئے۔
وہاں تعینات رضاکاروں کی تربیت بڑی توجہ اور مہارت سے کی گئی تھی۔ کانفرنس کی ضرورت کے مطابق انہیں (رضاکاروں) سترا (17) شعبوں میں مختلف کرداروں کے لئے ٹرینڈ کیا گیا تھا، جن میں رہائش اور لاجسٹکس جیسے امور سے متعلق مندوبین کی رہنمائی کرنا بھی شامل تھا۔ انھیں تربیت دیتے وقت صرف زبان سیکھانے پر ہی توجہ مرکوز نہ رکھی گئی تھی بلکہ کانفرنس کے موضوع "موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے تغیر و تبدل اور اس کے ماحولیات پر اثرات" کے بارے میں بھی بڑی عمیق آگاہی فراہم کی گئی تھی جو کانفرنس کا اصل مقصد تھا۔ پوری کانفرنس کے دوران ان رضاکاروں کے حسن سلوک اور ابلاغی رویے نے مندوبین کو بہت متاثر کیا۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ستّر (70) فیصد سے زیادہ ابلاغ لفظوں کی منہ سے ادائیگی کے بغیر کیا جاتا ہے اور یہ رضاکار اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہی نہیں بلکہ پوری طرح تربیت یافتہ بھی تھے۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے جسمانی ابلاغ (باڈی لینگوئیج) کا استعمال کیا اور مندوبین کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ بنا الفاظ ادا کئے اوربامعنی ابلاغ کرتے رہے۔ پرجوش اور خلوص سے بھرپور ان کے چہروں کے تاثرات اور رویوں نے مندوبین کے بالعموم اور خصوصاً میرے ہر رابطے کو یادگار بنایا۔
دست و ابرو کے اشارے ہوں یا چہرے کے خدوخال کے تاثرات ، ان کا استعمال اتنی مہارت سے کیا کہ بات سمجھنے میں کبھی دقت ہی پیش نہیں آئی جبکہ انہوں نے اپنائیت کا بھرپور احساس بھی جگائے رکھا ، ایسے میں جبکہ زبان کی رکاوٹیں پیش آ رہی ہوں ، ان کا لفظوں کے بِنا ابلاغ نہایت متاثر کن تھا۔ باکو کانفرنس کے یہ رضاکار مختلف ثقافتوں کے حامل لوگوں کے درمیان ہر طرح کی ابلاغی رکاوٹ کو ختم کرنے میں مددگار بنے رہے اور اس طرح انہوں نے کوپ 29 سربراہی کانفرنس کو سب کے لئے زیادہ بامقصد اور دلچسپ بنا دیا۔
مسکراہٹ ، پھر جنبش سر اور ابرو کے اتار چڑھاو¿۔ رضاکاروں کا مندوبین کے ساتھ بنا الفاظ کی ادائیگی کے ابلاغ کا یہ طریقہ بڑا مو¿ثر رہا ، اس طریقہ نے کانفرنس کے دوران خوشگوار و بامعنی بنا الفاظ ابلاغی ماحول کو ہر وقت قابل عمل بنائے رکھا۔ یہ سادہ مگر پرمعانی اشارے احترام کے دائرے سے کبھی باہر نہ نکلے جس سے کانفرنس کا ماحول پاکیزہ بھی بنا رہا اور مندوبین کو کانفرنس کے دوران کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ انھیں توجہ نہیں دی جا رہی بلکہ وہ ہر وقت بہت مطمئن دیکھائی دیئے کہ ان کی بڑی قدر کے ساتھ میزبانی جا رہی ہے۔
کوپ 29 کانفرنس نے عالمی سطح پر موسمیاتی تغیر و تبدل کی حساسیت کے حوالے سے دنیا بھر سے آئے مندوبین کو جہاں آگاہی فراہم کی تھی وہیں اس کانفرنس نے آذربائیجان کو اس موضوع کے ساتھ اپنی پر خلوص وابستگی کو ثابت کرنے کا سنہری موقع بھی فراہم کیا تھا جبکہ اس کانفرنس نے عالمی سطح پر ایک مثبت رویے اور ثقافتی لحاظ سے حساس تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
آذری رضاکاروں کے بنا الفاظ مو¿ثر ابلاغی رویے اور حسن سلوک نے مجھ سمیت ہر مہمان مندوب کے لئے کانفرنس کو منفرد و یادگار بنائے رکھا اور انھوں نے مہمان نوازی کے ایسے شاندار یادگاری نقوش کی چھاپ ڈالی جو کانفرنس سے کہیں بڑھ کر رہی۔
رضاکاروں کے رویے کا سب سے نمایاں پہلو ان کی بنا الفاظ بین الاقوامی مندوبین کے ساتھ ابلاغ کی صلاحیت تھی جسے وہ مختلف لسانی و ثقافتی پس منظر رکھنے والے مندوبین کے ساتھ ممکن بناتے تھے۔ ثقافتی تنوع ان کے ابلاغی رابطوں کے دوران بڑا اہم رہا۔ انہوں نے ہر مہمان کے ساتھ ایسا برتاو¿ کیا جو باہمی احترام کو ملحوض خاطر رکھتا۔ ان کے پرجوش و خوشگوار متحرک رویے نے ہر کسی سے بنا الفاظ ابلاغ کو دلچسپ و یادگار بنا دیا۔
وطن واپسی پر میرے ہمراہ منفرد گرم سرد آب و ہوا رکھنے والے بحرہ کیسپین کے ساحلی شہر باکو کے خوبصورت مناظر اور وہاں کے لوگوں کی یادیں ہی نہیں آئیں بلکہ ان رضاکاروں کی محبت و مہمان نوازی اور بنا الفاظ ابلاغ کا انداز بھی ہمراہ آیا ہے۔
باکو ، جسے ''منفرد ہواو¿ں کا شہر'' کہا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف شمال میں پھیلے وسیع و عریض سمندر سے چلنے والی ہوائیں اسے سرد بناتی ہیں تو دوسری طرف جنوب سے چلنے والی ہوائیں اسے گرم۔ باکو کی آب و ہوا میرے لئے ایک استعارہ ہے۔ مہمان نوازی کا ، متوازن و مخلص روح پرور پاکیزہ ماحول کا۔ جس کا میں نے وہاں مشاہدہ کیا اور جس نے میرے دل و دماغ پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور روح کو متاثر کیا۔ میں ہمیشہ اس عظیم اور حوصلہ مند قوم کے رضاکاروں کو اور بنا الفاظ ادا کئے ان کے ابلاغ کو یاد رکھوں گا۔