پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا زرعی تحقیقاتی ادارہ '' خوش آئند پہلو''

صائمہ درانی

زراعت کا ملک عزیز کی معیشت میں نہایت اہم کردار کسی سے مخفی نہیں۔بات ملکی غذائی پیداوار کی مسلسل اور یقینی فراہمی کی ہو یا ملکی برآمدات میں اضافے کی، زراعت کی ترقی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اب جبکہ اعلیٰ ترین ملکی سطح پر زراعت کے شعبے کی بہتری اور ترقی کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، یہ مناسب ہوگا کہ ملک میں موجود زرعی تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر نہ صرف ان کی استعداد اور کارکردگی کو جانچا جائے بلکہ انہیں بہتر اندا ز سے کام کر نے کیلئے مناسب فنڈز اور تعاون بھی مہیا ہو، تاکہ پاکستان میں زراعت کا شعبہ جدید بنیاد پر ترقی کر کے ملکی ضروریات کو بطریقِ احسن پورا کر سکے۔فارمر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدراور پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کے حالیہ بیانات کے مطابق ملک میں زراعت کے شعبے میں تحقیق ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔تحقیق کی ضرورت خاص طور پر اچھی اقسام کے بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ہے۔ اسی طرح بہتر ٹیکنالوجی کے استعمال اور ماحول دوست زراعت کے طریقوں میں پیش رفت بھی انتہائی ضروری ہے۔جنگِ عظیم دوئم کی تابکاری سے تباہ کاریوں کے بعد امریکی صدر کے'' ایٹم برائے امن'' کے نظر یے کے تحت دنیا بھر میں تابکاری شعاعوں کو زراعت کے میدان میں بروئے کار لا کر اہم فصلوں کی نئی اقسام کو متعارف کروایا گیا جو بہتر پیداوار اور ماحول سے مطابقت کے علاوہ بیماریوں اور نقصان دہ حشرات کے خلاف نہایت موئثر مدافعت کی حامل تھیں۔ملک کے مایہ ناز ادارے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے بھی زراعت کے شعبے خصوصاََ فصلوں کی نئی اور بہتر اقسام اور دیگر زرعی شعبہ جات میں تابکاری شعاعوں کے مفید مصرف کاادراک کافی پہلے سے کر لیا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کمیشن نے اپنے پہلے بائیولوجسٹ کا چناو¿ 1958میں ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں ایٹمی توانائی سنٹر لاہور میں 1960 کے اوائل میں ریڈیو بائیولوجی ڈویڑن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد 1963میں ٹنڈو جام، سندھ میں اٹامک انرجی ایگریکلچر ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں آیا جسے بعد میں نیوکلئیرانسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر (NIA) کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد 1972میں نیاب کے نام سے فیصل آباد اور 1982میں نیفا کے نام سے پشاور میں بتدریج ایٹمی زرعی تحقیقاتی اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔مزید برآں 1994میں فیصل آباد میں ہی نیشنل انسٹیٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹیک انجیئرنگ (NIBGE) قائم ہوا۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرِانتظام قائم ہونے والے ان تمام تحقیقاتی اداروں کا مقصد نیو کلیئر ٹیکنیک اور تابکاری کو بہترین طریقے پر بروئے کار لاتے ہوئے اہم فصلوں کی پیدا وار بڑھانا تھا۔ یہ زرعی ادارے ملک کے اہم جغرافیائی خطوں میں واقع ہیں اور ان اداروں نے موسمی اور جغرافیائی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اہم قومی اجناس جیسے کپاس، گندم، چاول، گنے، چنے، مونگ اور کینولا کی 150 سے زائدنئی اقسام اب تک متعارف کروائی ہیں۔ٹنڈو جام میں واقع NIA کا تحقیقاتی ادارہ چار اہم شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ نئی اقسام کی فصلوں کی جنیاتی پیداوار زمینی اجزاءکی تحقیق اور مختلف اجناس کی نشو نما اور بچاو¿ کیلئے کی جانے والی تحقیق اسکے اہم شعبہ جات ہیں۔ NIA نے اب تک مختلف فصلوں کی 35 اقسام متعارف کروائی ہیں۔نیاب 78 کی کپاس کے نام سے کون واقف نہیں جس نے ملک میں کپاس کی پیداوا ر میں انقلاب برپا کر دیا جو سب سے بہتر پیداوار کے علاوہ مختلف نقصان دہ حشرات اور بیماریوں کے خلاف خاطر خواہ قوتِ مدافعت بھی رکھتی ہے۔ کپاس کی اس مشہور قسم کے علاوہ اس ادارے میں گندم، چاول، چنے، مونگ، رائی اور کینو کی تقریباََ 65 سے زائد اقسام دریافت کی ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں پر زمینی اور ماحولیاتی تجزیے کا کام بھی جاری ہے۔پشاور میں 1982 میں قائم شدہ ادارے نیفا میں بھی فصلوں کی زیادہ پیداوار کی حامل اقسام کی تیاری، زمین کی زرخیزی سے متعلق تحقیق اور خوراک کو محفوظ بنانے اور فصل کو مختلف طریقوں سے نقصانات سے بچانے پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ نیفا نے اب تک مختلف فصلوں کی 29 سے زائد اقسام دریافت کی ہیں۔ نیفا نے گنے کی فصل کو دیمک سے بچانے کیلئے خصوصی اقدامات کیے تاکہ کسانوں کے نقصان کی تلافی کی جاسکے۔جدید زرعی تحقیق سے حاصل شدہ فوائد کے پیشِ نظر 1994میں قائم نبجی (NIBGE) میں مختلف انواع کی جدید ترین تحقیق کے مواقع پیدا کیئے گئے۔ نبجی (NIBGE) میں زراعت کے علاوہ صحت، ماحولیات اور صنعت و حرفت کیلئے بائیو ٹیکنالوجی اور جنیاتی تحقیقاتی کام کیا جاتا ہے۔اچھی اور بہتر اقسام کی دریافت کے علاوہ PCR پر مشتمل ایسا تشخیصی نظام وضع کیا ہے جو ٹی بی، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائیٹس اور لیوکیمیا میں کام آتا ہے۔ دیگر موروثی بیماریوں کے تجزیے کی سہولت بھی عوام کو حاصل ہے۔حال ہی میں اس ادارے کے سائنسدانوں کو پاکستان اکیڈمی آف سائنس کیطرف سے 2020 کیلئے طلائی تغموں سے نوازا گیا جنہوں نے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور کپاس اور گندم جیسی اہم اجناس کے جنیاتی مطالعہ پر کام کیا۔NIBGE نے اب تک مختلف فصلوں کی 21 سے زائد اقسام متعارف کروائی ہیں۔ہمارے ملک میں سیم اور تھور اور شورزدہ زمینوں کا مسئلہ خاصہ تشویش ناک اور توجہ کا متقاضی ہے۔ ان اداروں میں ایسے پودوں کی اقسام پر تحقیق کی گئی جو سیم و شور زدہ زمینوں کو دوبارہ قابلِ کاشت بنا سکتے ہیں اور حکومت کے تعاون سے ایسی اقسام پر تحقیقات وتجربات کا کام کافی وسیع پیمانے پر جاری ہے مصنوعی کھاد اور کیڑے مار دواو¿ں کا بیجا اور بے حساب استعمال ماحول اور زمین کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے متناسب اور محتاط استعمال کو یقینی بنانے کیلئے تحقیقات کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں کپاس اور گنے کو نقصان پہنچانے والے اور رس چوسنے والے کیڑوں اور مکھیوں سے بچاو¿ کیلئے زرعی تحقیق کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس سے سندھ میں گنے کی فصل کو نقصان پہنچانے والے حشرات کے خلاف موئثر کنٹرول کیا گیا۔ اسی طرح دیگر پھلوں خصوصاََ آم اور امرود کی مکھی کو کنٹرول کرنے پر تحقیق کی گئی۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرِ انتظام کام کرنے والے اداروں اور سائنسدانوں کے تحقیق اور تجربات کے ثمرات کا اعتراف صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے۔انٹر نیشنل اٹامک انرجی کمیشن (IAEA) کے زرعی تحقیقاتی ڈویڑن نے اپنی اشاعت میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی دریافت شدہ کپاس کی اقسام کے مثبت ثمرات ایک جائزے کی صورت میں پیش کیے کہ کس طرح اس نے پاکستان کی کپاس صنعت میں بہتری کیلیے اپنا کردار ادا کیا۔بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والی تحقیق کے مفید اور مثبت اثرات کا اعتراف یقینا ان اداروں کیلئے قابلِ اطمینان ہے جس سے حوصلہ افزائی کے بعد مزید محنت اور تندہی سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ایٹمی توانائی کمیشن کے تمام زرعی تحقیقاتی ادارے وسیع اور جدید طرز پر اپنے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے سائنسدانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ ان اداروں کی تجربہ گاہیں ملک کی قابلِ قدر یونیورسٹیوں کے طالب علموں کیلئے اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔جہاں وہ M.Phil اور PhD کی اعلٰی ڈگریوں کے حصول کیلئے تحقیق کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ NIBGE اور NIAB بائیو ٹیکنالوجی اور بائیو لوجیکل سائنسز میں PhD اور MPhil کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجنئیرنگ اینڈ ایپلائیڈ سائنسز (PIEAS) کے ذیلی کالج ہیں۔مزید برآں یہ ادارے اپنی تحقیق کہ دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے انہیں کسانوں تک لانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ان اداروں میں ہر سال کسان ڈے منانے کا مقصد ہی جدید ترین زرعی تحقیق کے ثمرات کو کسانوں تک پہنچاناہے۔ اس مختصر سے جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن ملک کا ایک قابلِ قدر سائنسی اور تحقیقی ادارہ ہونے کے باعث زراعت کے شعبے میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف خوب آگاہ ہے بلکہ اسے پوری طرح نبھانے کیلئے دن رات کو شاں بھی ہے تاکہ جدید زرعی تحقیق اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر ملک عزیز کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن