بانی اور چیئرمین پی ٹی آ ئی کا مبالغہ آرائی کرنے والے رہنماﺅں سے اعلان لاتعلقی۔
اسے کہتے ہیں غبارے سے ہوا نکل گئی‘ گیس اس لئے نہیں کہتے کہ اس سے مطلب کچھ اور ہو جاتا ہے۔ سچائی کی یہی خوبی ہے کہ یاد نہیں رکھنا پڑتی اور جھوٹ کا یہی مسئلہ ہے کہ ہر وقت یاد رکھنا پڑتا ہے۔ اب اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کی طرف سے جن میں کئی ثقہ بند رہنماءبھی شامل ہیں‘ بڑی شدومد سے اسلام آباد میں آنے والوں کی تعداد اس شکاری کے مارے ہوئے شیر کی جسامت کی طرح جو ہر آنے والے کے سامنے روز بڑھا چڑھا کر بیان کرتا تھا‘ یوں 6 فٹ سے بڑھ کر بالآخر اس شیر کی کل لمبائی 25 فٹ سے بھی بڑھ گئی تھی۔ بہرکیف تمام قائدین سینکڑوں ہلاکتوں سے کم پر راضی نظر نہیں آتے تھے۔ اب جبکہ خود بانی تحریک نے جو جیل میں ہیں اور پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے جو آزاد ہیں‘ گزشتہ روز ان کا اور اپنا بیان پریس کانفرنس میں دیا کہ ہم سینکڑوں ہلاکتوں کی خبروں سے اور ایساکہنے والوں سے برات کا اظہار کرتے ہیں‘ ہاں البتہ 12 ہلاکتوں پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے۔ اسی طرح اب یہ لاینحل مسئلہ بھی حل ہو گیا جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا تھا۔ شکر ہے ورنہ کافی کنفیوژن پھیلا ہوا تھا۔ امید ہے اب خیبر پی کے حکومت کو بھی فی شہید ایک کروڑ روپے دینے میں آسانی رہے گی ورنہ سینکڑوں افراد کے گھر والوں کو فی کس ایک کروڑ دینا ممکن نہ ہوتا۔ خزانہ پہلے ہی خالی ہے‘ پیسے کہاں سے آتے جو اربں روپے بنتے تھے۔ اب ان لاشوں سے بھرے ٹرکوں کے قصے سنانے والے رہنماءکس منہ سے عوام کو مطمئن کرینگے جو انکے نوحہءغم پر گریہ کئے ہوئے تھے۔
چیمپئنز ٹرافی کا معاملہ آئی سی سی کیلئے سانپ کے منہ میں چھچھوندر بن گیا۔
اگر تھوڑی بہت امید تھی کہ چیمپئنز ٹرافی کرکٹ کے انقعاد کا مسئلہ کچھ خیر و خوبی سے حل ہو جائیگا‘ اب یہ امید بھی نقش برآب ثابت ہونے لگی ہے کیونکہ بھارتی جے شاہ نے آئی سی سی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ بھارتیوں کے ہوتے ہوئے خیر کی کوئی امید نہیں ہوتی کیونکہ انہیں ویسے ہی پاکستان سے چڑ ہے۔ وہ کسی صورت پاکستان کی نیک نامی برداشت نہیں کر سکتے۔ اب کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کا پاکستان میں انعقاد ایک اہم ایونٹ ہے جس سے دنیا میں پاکستان کے پرامن ملک ہونے کا تاثر مزید پختہ ہوگا اور دنیا بھر سے کھلاڑی یہاں آرہے ہیں‘ انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ خود بھارتی کرکٹ ٹیم کو بھی شاید یہاں آنے میں کوئی مسئلہ نہیں مگر مودی حکومت ایسا نہیں چاہتی۔ بھارت چیمپئنز ٹرافی کے اپنے میچ کسی نیوٹرل یعنی دوسرے ملک میں کھیلنا چاہتا ہے مگر پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ میچ سب پاکستان میں ہونگے۔ ورنہ پاکستان بھی بھارت میں کسی ایونٹ میں شرکت نہیں کریگا۔ آئی سی سی نے کوشش کی مگر غریب کی جورو کی طرح کوئی حل نہ نکال سکی۔ کبھی کچھ کہا جاتا ہے‘ کبھی کچھ کہا جاتا ہے۔ پرنالا وہیں کا وہیں ہے۔ اب نیا فار مولا پارٹنر شپ کے نام سے آیا ہے جس کے تحت آئندہ تین سال چیمپئنز ٹرافی میچ دبئی میں ہونگے۔ دیکھنا ہے کہ اسپر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے اصولی موقف پر ڈٹا رہے اور بھارت کی ایک نہ چلنے دے۔ کیونکہ جب دنیا کو پاکستان آنے میں کوئی خطرہ نہیں تو بھارتی کھلاڑیوں کو یہاں کون سی کالی بلی کھا جائیگی۔ اس بارے میں پاکستان واضح اور ٹھوس موقف کے ساتھ ڈٹ کر بھارتی سازشوں کا توڑ نکالے۔ چیمپئنز ٹرافی کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے جے شاہ کی بھی سبکی ہو گی۔
قومی دن پر اماراتی صدر نے شہریوں کے ذمہ 401 ملین درہم قرضے معاف کر دیئے۔
یہ ہوتے ہیں عوام دوست حکمران۔ آمریت‘ جمہوریت‘ بادشاہت کے چکروں میں پڑنے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ حکمرانوں کی عوام دوست خدمات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر جمہوری نظام میں عوام بھوکے مر رہے ہوں‘ تعلیم‘ صحت اور روزمرہ کی لازمی اشیاءکے حصول میں ناکام رہتے ہوں‘ تو ایسی جمہوریت کا کیا اچار ڈالنا ہے۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر عرب ممالک میں نافذ شاہی نظام ہے۔ وہاں کا بادشاہ اور اسکی حکومت کے ارکان عوام کی فلاح و بہبود کےلئے جو کچھ کرتے ہیں‘ وہ بڑے سے بڑے جمہوری ملکوں میں بھی وہاں کےعوام کو نصیب نہیں۔ قانون بھی سختی سے موجود ہے‘ جرائم کی شرح بھی ترقی یافتہ جدید جمہوری ممالک کی نسبت بہت ہی کم ہے۔ دنیا کی ہرآسائش انہیں میسر ہے‘ ان گلف ممالک کا رقبہ بھی وسیع نہیں‘ آبادی بھی زیادہ نہیں مگر یہاں کے حکمرانوں نے ان ممالک کو حقیقت میں رشک بریں بنا دیا ہے۔ ان میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے جس کے شہر پیرس‘ نیویارک‘ ملبورن اور لندن جیسے جدید شہروں کے ہم پلہ نظر آتے ہیں۔ وہاں کے حکمرانوں کی پالیسیاں عوام کو مطمئن اور خوش رکھتی ہیں۔ گزشتہ روز عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر دیکھ لیں۔ وہاں کے حکمران نے شہریوں کے ذمہ 401 ملین درہم کے قرضے معاف کر دیئے جو انہوں نے کاروبار یا دیگر کاموں کیلئے بنکوں سے لئے تھے۔ یوں ہمارے مذہب کی رو سے بھی درست ہے کہ قرضہ دار کی گردن قرض سے چھڑانے کا بھی بڑا اجر ہے۔ سینکڑوں شہریوں کو اس بوجھ سے نجات ملی‘ ہمارے ہاں بھی اگر ایسے اہم قومی دنوں کے موقع پر سرکاری نہ سہی‘ غیرسرکاری طور پر سود خوروں سے لئے جانے والے قرضے قانوناً ریاستی حکم کے تحت معاف کر دیئے جائیں تو یقین کریں کہ لاکھوں پاکستانیوں کو اس مکروہ سودی دھندے سے نجات ملے گی۔ ویسے بھی سود حرام ہے۔
سردیوں کا آغاز ہوتے ہی لنڈے بازاروں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔
ایک بار پھر موسم نے انگڑائی لی اور سردیوں نے ہمارے در پر دستک دی ہے۔ بدلتے ماحولیاتی نظام کے بعد اب کئی برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ سردیاں اکتوبر یا نومبر کی بجائے دسمبر میں ہماری مہمان بنتی ہیں۔ پہلے جس طرح بچے اپنے ”نانکے“ جا کر واپس جانے کا نام نہیں لیتے‘ اسی طرح سردیاں بھی نومبر دسمبر جنوری اور فروری تک بڑے سکون سے ہمارے ہاں ٹھہرتی اور مارچ میں واپسی کیلئے رخت سفر باندھتی تھی۔ مگر اب دیکھ لیں دسمبر اور جنوری میں مختصر قیام کے بعد سردیاں گویا چاچو یا ماموں کے گھر سے واپس جانے لگتی ہیں اور واقعی فروری میں رخصت ہو جاتی ہیں۔ کئی بار تو بھاری سویٹر‘ جیکٹس‘ گرم شالیں‘ کھیس‘ دھسے نکالنے کے ساتھ ہی واپس رکھنے کو جی چاہتا ہے۔ رات کو کمبل اور رضائیاں البتہ استعمال ہوتی ہیں۔ سردیوں کی سوغات میں اب لے دیکر صرف ساگ ہی رہ گیا ہے۔ باقی ڈرائی فروخت‘ انڈے حتیٰ کے مونگ پھلی تک خریدنے کا یارا نہیں رہا‘ ریوڑیاں اور چائے کا کپ بھی بوجھ لگتا ہے۔ ایسے میں پہلے کی طرح سوپ یعنی یخنی کی عیاشی کون کرے۔ اب ویسے بھی سردیاں ہم سے جان چھڑانے کے درپے رہتی ہیں اور ہم
لپٹ عدم سے کبھی یوں کہ جان پڑ جائے
تیرے غرور کے قربان کوئی کام تو کر
کہتے ہوئے منتیں کرتے رہ جاتے ہیں کہ کاش سردی کچھ دیر اور قیام کرے۔ اگر ہم اسی طرح ماحول دشمن پالیسیاں اپناتے رہیں گے‘ سبزے اور درختوں سے محبت اور آلودگی سے نجات نہیں پائیں گے تو صرف موسم گرما ہمارے گھروں میں بن بلائے مہمان کی طرح طویل عرصے قیام کرتا نظر آئیگا اور ہم سب اپنے ہی عرق ندامت میں غرق ملیں گے۔ اس لئے ہمیں ماحول دوست رویہ اپنانا ہوگا ورنہ بے چارے لنڈے بازار میں کم سردی اورپھر مہنگائی کی وجہ سے یونہی مندا جاری رہے گا۔ صرف دو ماہ کیلئے رونق رہے گی۔