چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے 26 نومبر کے واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والی بحث اور پراپیگنڈے کا خاتمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے ہیں‘ سینکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خاں کو 26 نومبر کے واقعہ کا علم نہیں تھا‘ بانی کا موقف ہے کہ گولی کسی بھی جانب سے نہیں چلنی چاہیے تھی‘ گولی جس نے بھی چلائی‘ تحقیقات ہونی چاہیے۔ بانی نے شہادتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرانے کی ہدایت کی۔ بیرسٹر گوہر کے بقول عمران ےان نے کہا کہ سینٹ میں بھی اس معاملے پر آواز اٹھائی جائے۔
یہ امر واقع ہے کہ26 نومبر کی رات ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے غیر قانونی اور پر تشدد اجتماع کو ہٹانے کیلئے سکیورٹی اداروں کو مجبوراً طاقت استعمال کرنا پڑی جس کے حوالے سے حکومتی عہدے داروں کا دعویٰ ہے کہ اس عمل میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسکے برعکس پی ٹی آئی کے عہدے داران اور اسکے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کی شہادت کا دعویٰ اور تسلسل کے ساتھ پراپیگنڈہ کیا گیا جس سے پی ٹی آئی اور ملک کی ساکھ بھی خراب ہوئی۔ اگر پی ٹی آئی کی قیادت پہلے ہی اصل حقائق سامنے لے آتی تو جھوٹ کی سیاست کو فروغ دینے کے الزام سے بچ جاتی۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود جو عناصر اب بھی لاشوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پراپیگنڈہ میں مصروف ہیں‘ انکے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ انتہائی خوش آئند صورتحال ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خاں کی جانب سے 26 نومبر کے واقعہ پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جو انکی جانب سے تعمیری سیاست کی طرف مثبت قدم نظر آتا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ ہی وہ واحد فورم ہے جہاں اپوزیشن حکومتی بداعمالیوں پر اور سسٹم کی اصلاح کیلئے موثر آواز اٹھا سکتی ہے۔عوام اس مقصد کیلئے ہی اپنے نمائندے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کی تعمیری سیاست کرنے کی حکمت عملی اپناتی تو آج نہ ملک میں انتشار کی فضا ہوتی اور نہ ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوتا جبکہ اس حکمت عملی کے تحت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی مفاہمت کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا تھا۔ جس طرح اب بانی پی ٹی آئی نے 26 نومبر کے واقعہ پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تو پی ٹی آئی کی قیادت کو فہم و ادراک کا یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہی جمہوری طریقہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر پی ٹی آئی قیادت اپنی پارٹی کو بھی سیاسی میدان میں سرگرم رکھ سکتی ہے۔ سڑکوں‘ چوراہوں پر اودھم مچانے کے بجائے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جمہوری طریقے سے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے ٹف ٹائم بھی دے سکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افراتفری اور انتشار کی سیاست سے کبھی معاملات طے نہیں ہوپاتے‘ اس سے نہ صرف سسٹم کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے بلکہ ماضی جیسے ماورائے آئین اقدام کا موقع بھی نکل آتا ہے۔