مہنگائی میں کمی، حقیقت یا فسانہ

پاکستان ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کی طرف سے جاری کردہ قیمتوں کے عمومی اشاریے (سی پی آئی) میں نومبر میں 4.9 فیصد کی سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے جو اپریل 2018ءکے بعد مہنگائی کی کم ترین سطح ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چھے سال کی کم ترین سطح ہے۔ وزارت خزانہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ افراط زر میں کمی سے مالیاتی پالیسی میں آسانی اور سرمایہ کی لاگت میں کمی کا باعث بننا چاہیے۔ نومبر میں صارفین کے لیے قیمتوں کا عمومی اشاریہ 4.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو اکتوبر میں 7.2 فیصد اور گزشتہ سال نومبر میں 29.2 فیصد تھا۔ شہری علاقوں میں صارفین کے لیے قیمتوں کا عمومی اشاریہ 5.2 فیصد تک گر گیا ہے جو اکتوبر میں 9.3 فیصد اور گزشتہ سال نومبر میں 30.4 فیصد تھا۔ دیہی علاقوں میں صارفین کے لیے قیمتوں کا اشاریہ 4.3 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو اکتوبر میں 4.2 فیصد اور گزشتہ سال نومبر میں 27.5 فیصد تھا۔ نومبر میں صارفین کے لیے قیمتوں کا حساس اشاریہ (ایس پی آئی) 7.3 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو اکتوبر میں 9.7 فیصد اور گزشتہ سال نومبر میں 30.6 فیصد تھا۔ ہول سیل پرائس انڈکس نومبر میں 2.3 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو اکتوبر میں 3.9 فیصد اور گزشتہ سال نومبر میں 26.4 فیصد تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کے اعداد و شمار میں تو مہنگائی مسلسل کم ہو رہی ہے لیکن منڈیوں میں اس کا اثر کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی میں اتنی زیادہ کمی صرف حکومتی کاغذوں میں نظر آتی ہے اور زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حکومت کو اگر یہ لگتا ہے کہ یوں مہنگائی میں کاغذی کمی لا کر عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے تو یہ اہلِ اقتدار کی خام خیالی ہے۔ عوام کو حقیقی ریلیف چاہیے انھیں طفل تسلیاں نہ دی جائیں اور اشیائے ضروریہ کی بڑھی ہوئی قیمتوں میں ریلیف دے کر ہی حکومت سرخرو ہوسکتی ہے، اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن