ڈی چوک کے72گھنٹے

    گزشتہ سے پیوستہ ہفتے ”ڈی چوک“ ساری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنا رہا۔ 25اور26نومبر کو یہاں جو کچھ ہوا، ہوتا رہا، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا نے سب کچھ دکھایا۔ ڈی چوک کے متعلق اب بھی متضاد خبریں آ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے یہاں رینجرز اور پولیس نے سیدھی گولیاں چلائیں۔ کافی لوگوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔ جبکہ حکومتی ذرائع اور وفاقی وزراءاب تک اس امر کی تردید کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما ہلاکتوں کے جو دعوے کر رہے ہیں اُن میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔ حیران کن امر ہے کہ پی ٹی آئی ابھی تک ان ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے کارکنوں کے ناموں کی کوئی فہرست جاری نہیں کر سکی۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے نام جب تک منظر عام پر نہیں آتے، ناموں کی تصدیق نہیں ہو جاتی۔ ان دعوﺅں اور خبروں کو ہم سچا قرار نہیں دے سکتے۔
میڈیا بھی اب تک خاموش ہے۔ اُس کے رپورٹرز اور ذرائع اس تصدیق سے قاصر ہیں کہ ہلاک شدگان کی تعداد کتنی ہے؟ سوشل میڈیا اس حوالے سے جو انفارمیشن فراہم کر رہا ہے ، اعتماد کے قابل نہیں۔ سوشل میڈیا آزادی اظہارِ رائے کے نام پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 24گھنٹوں میں سے 24گھنٹے ہی سوشل میڈیا پر جھوٹ بولا اور بیچا جاتا ہے۔ بے سروپا خبریں اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
پی ٹی آئی تین مطالبات کے ساتھ احتجاج کرنے نکلی تھی اُس نے 24نومبر کو ڈی چوک پہنچنا تھا اور مطالبات کے منظور ہونے تک وہیں پڑاﺅ ڈالنا تھا۔ ڈی چوک اسلام آباد کی اہم تاریخی شاہراہ ہے جس کے اردگرد بہت سی سرکاری عمارتیں ہیں۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاﺅس، پارلیمنٹ ہاﺅس اور سپریم کورٹ بھی یہیں واقع ہیں جو ڈی چوک کی جاہ و حشمت میں اضافہ کرتے ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ انہیں اگر احتجاج کرنا ہو، دھرنے اور مظاہرے کے لیے کسی شاہراہ کو اپنا محور و مرکز بنانا ہو تو عمومی طور پر اسلام آباد میں ڈی چوک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لاہور میں مظاہرے یا احتجاج اکثر چیئرنگ کراس یا لاہور پریس کلب کے باہر ہوتے ہیں۔ سیاسی مظاہروں کے لیے لاہور میں ان ہی دو مقامات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسا احتجاج یا مظاہرے پنڈی میں ہوں تو ڈی چوک اُن کی منزل ہوتی ہے۔
اسلام آباد اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہاں فیڈرل حکومت قائم ہے جس کا سیکرٹریٹ اور مرکزی دفاتر یہیں واقع ہیں۔ پاکستان کو چلانے والی پوری بیوروکریسی بھی یہیں ہوتی ہے۔ جبکہ 57ملکوں کے سفارت خانے بھی اسلام آباد میں ہی ہیں۔ یہاں کوئی چھوٹا سا معاملہ ہی کیوں نہ درپیش ہو تو اس کی پوری دنیا کو خبر ہو جاتی ہے۔
پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی کی ایماءپر اپنے احتجاج اور دھرنے کے لیے ڈی چوک کا انتخاب اس لیے کیا کہ اپنی آواز نہ صرف وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بلکہ پوری دنیا تک پہنچا سکیں۔ اکتوبر کا اختتام ہونے کو تھا جب بانی پی ٹی آئی کی مشاورت سے طے پایا ، احتجاج ہونا ہے، دھرنا بھی اس احتجاج کا حصہ بنایا گیا۔ تاریخ اور مقام کا تعین بھی کر لیا گیا کہ 24نومبر کو مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک میں دھرنا دینا ہے۔
نومبر کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کا میڈیا سیل احتجاج اور دھرنے سے متعلق خبریں چلانے لگا چونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لیے یہ پہلے سے طے کر لیا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ برآمد ہوگا جو مختلف شہروں سے ہوتا ہوا ڈی چوک پہنچے گا اور مطالبات کی منظوری تک یہیں قیام کرے گا۔
بہت کوششیں ہوئیں حکومت نے چھٹی والے دن جیل کھلوائی ، پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماﺅں کو اڈیالہ بھیجا تاکہ بانی کو اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ ڈی چوک کا احتجاج اور دھرنا ملتوی کر دیں۔ دھرنا دینا اگر مقصود ہے اور بہت ضروری ہے تو کیپیٹل کے مضافات میں سنگجانی کے مقام پر ہو سکتا ہے۔ جس پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس کی باقاعدہ اجازت بھی دی جائے گی مگر رہنما، بانی کو اس بات پر آمادہ نہیں کر سکے ۔
24نومبر کا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ہی نہیں، پوری قوم کو بھی انتظار تھا، اس دن کو کیا ہونے والا ہے۔ ایسا کون سا بم پھٹے گا کہ ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیگی اور انکے مطالبات مان لیے جائیں گے جن کا چرچا اب بڑے تواتر سے میڈیا میں ہو رہا تھا۔ پی ٹی آئی کے پیش کردہ تین مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو فوری رہا کیا جائے۔ 26ویں آئینی ترمیم واپس لی جائے اور تیسرے مطالبے میں 8فروری کے چھینے گئے انتخابی مینڈیٹ کو واپس کرنے کی بات کی گئی تھی۔ تینوں مطالبات نہ ماننے کی صورت میں احتجاج اور ڈی چوک پر دھرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
حکومت کے نقطہ¿ نظر سے پی ٹی آئی کے تینوں مطالبات ناقابل قبول تھے۔ نہیں مانے جا سکتے تھے۔ تجزیہ کار بھی ان ”مطالبات“ پر تبصرہ اور تجزیہ پیش کر رہے تھے کہ یہ نہ مانے جانے کے زمرہ میں آتے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کو یقین اور بھروسہ تھا کہ بانی نے قوم کو باہر نکلنے کی جو کال دی ہے اس پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ ڈی چوک پر اتنا بڑا اجتماع دیکھنے میں آئے گا جو تاریخ انسانی نے پہلے کبھی دیکھا نہیں ہو گا۔
بالآخر 24نومبر بھی آ گیا جو پی ٹی آئی کے احتجاج اور ڈی چوک پہنچنے کی ڈیڈ لائن تھی۔ خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں ایک بڑا جلوس مطالبات کی منظوری کے لیے نکلا۔ تاہم اس دوران سندھ اور پنجاب میں مکمل خاموشی اور سناٹا چھایا رہا۔ دونوں صوبوں کی صوبائی قیادت کی جانب سے نہ کوئی بیان نہ تیاری، مکمل بلیک آﺅٹ رہا۔ صوبائی قیادت منظر سے غائب رہی۔
وفاق اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے حفظ ماتقدم کے طو ر پر 24نومبر سے پہلے ہی اسلام آباد کی طرف جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا تھا اور زبردست ناکہ بندی کی ہوئی تھی جس سے ہر طرح کی ٹرانسپورٹ بند تھی۔ آمدورفت نہ ہونے سے جہازوں کی پروازیں بھی متاثر تھیں۔ شہریوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ایمبولینسز بھی بیماروں کو اس دوران ہسپتال نہ پہنچا سکیں۔ پٹرول کی سپلائی رک جانے سے پٹرول پمپ بھی بند ہو گئے تھے۔ جس سے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سارا کاروبار زندگی معطل تھا۔ اس ساری صورت حال سے دنیا میں ہماری خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ کس نے کیا کھویا، کیا پایا! یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن پاکستان جو آگے بڑھ رہا ہے اب ایسے واقعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ فوج کے کردار کو بھی ہم فراموش نہیں کر سکتے۔ فوج نہ ہوتی تو ڈی چوک پر کوئی بڑا سانحہ ہو سکتا تھا۔

ای پیپر دی نیشن