شاہ محمود قریشی کی قومی مفاہمت کی تجویز

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی پارٹی کے کارکن اور دوسرے درجے کے لیڈرز گرفتار ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے بارے میں قیادت کے رویے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال شخصیت پرستی پر مبنی سیاسی کلچر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے? دنیا بھر میں جن سیاسی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق پر چلایا جاتا ہے ان میں سیاسی اسیروں کو پوری اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل رکھا جاتا ہے۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید تحریک انصاف کے لیڈرز سینیٹر اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ کئی بار مبینہ طور پر شکوہ کر چکے ہیں کہ ان سے پارٹی کے اہم فیصلوں کے بارے میں بھی مشاورت نہیں کی جاتی۔ تحریک انصاف کے مرکزی لیڈر عمران خان چونکہ خود جیل میں قید ہیں لہذا ان کو پارٹی کے تنظیمی امور کے سلسلے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد کا احتجاج سیاسی کارکنوں اور پولیس و رینجرز کے جوانوں کی شہادتوں کی وجہ سے قومی سانحہ بن چکا ہے۔ اس سانحے کے بعد تحریک انصاف کے نائب صدر نائب کپتان شاہ محمود قریشی نے ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے سے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے پیشکش کی ہے کہ اگر ان کو موقع فراہم کیا جائے تو وہ اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کر کے ان کو قومی مفاہمت پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جو لوگ تحریک انصاف پر پابندی اور خیبر پختون خواہ میں گورنر راج کی باتیں کر رہے ہیں وہ ان کی احمقانہ خواہشات تو ہو سکتی ہیں مگر انکے کسی صورت مثبت نتائج برامد نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے مدبر اراکین پارلیمنٹ اور عہدے داران سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہو رہی ہیں ان حالات میں پاکستان مزید انتشار اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے پی پی پی، جمعیت العلماءاسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی مینگل گروپ کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے تحریک انصاف پر پابندی کی مخالفت کر کے سیاسی بلوغت اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی رائے پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ اس نے تحریک انصاف پر پابندی کی حمایت کی ہے حالانکہ خود ان کی اپنی جماعت پابندی کی زد میں آ چکی ہے جس کا سیاست جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا ۔
شاہ محمود قریشی نے ڈی چوک پر شہید ہونے والے سیاسی کارکنوں اور فوجی جوانوں کے خاندانوں سے دلی افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی چوک کے المیہ کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر ان سے اپیل کریں گی کہ ڈی چوک کے واقعے کی مکمل تحقیقات کرائی جائے تاکہ حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔ پاکستان میں سیاسی کشیدگی اور تناو تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے۔ ان سنگین حالات میں شاہ محمود قریشی کی رائے بڑی صائب ہے جو پاکستان کے نیک نام سینیئر سیاستدان ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور دانشمندی کے تمام جماعتوں کے لیڈر قائل ہیں۔ حکومت اگر سیاسی کشیدگی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے شاہ محمود قریشی کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کا موقع ضرور فراہم کرنا چاہیے تاکہ عمران خان کو زمینی حقائق کے مطابق قومی مفاہمت اور قومی اتفاق رائے پر آمادہ کیا جا سکے۔ الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ڈی چوک کے واقعات کے بارے میں تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس احتجاجی مظاہرے میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ احتجاجی مظاہرے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی ہوم ورک کیا گیا تھا۔ احتجاجی کراوڈ کا رخ ڈی چوک کی جانب کرنے یا سنگجانی چوک کی جانب جانے کے سلسلے میں لیڈروں کے متضاد بیانات نے کارکنوں کو مایوس اور کنفیوڑ کیا اور احتجاجی مظاہرے کو کمزور کیا۔ اگر احتجاجی مظاہرین کو سنگجانی چوک پر لایا جاتا اور وہاں پر ان کے لیے قیام اور طعام کا مناسب انتظام کیا جاتا تو ڈی چوک کے سانحے سے بچا جا سکتا تھا اور مذاکرات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اگر خیبر پختون خواہ کی جانب سے آنے والے قافلے سنگجانی چوک پر اپنا ڈیرا جما لیتے تو دوسرے روز دوسرے شہروں سے بھی قافلے سنگجانی چوک پہنچ جاتے جس سے ان کی عددی اکثریت میں اضافہ ہو جاتا اور حکومت دباو میں آ جاتی۔ اطلاعات کے مطابق 300 سے 400 تک کارکن ڈی چوک تک پہنچ سکے باقی مظاہرین چائنہ چوک کے قرب و جوار میں کھڑے رہے جس سے حکومت پر تحریک انصاف کی سیاسی کمزوری ظاہر ہو گئی۔ اگر احتجاجی مظاہرے میں شامل بشمول علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی اکٹھے ڈی چوک پر پہنچ جاتے تو حکومت کے لیے کریک ڈاون کرنا آسان کام نہ ہوتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان کو ہمیشہ دہراتی رہتی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں اگر ٹھنڈے دل کے ساتھ گزشتہ ایک سال کی حکمت عملی پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان، حکومت، عدلیہ اور تحریک انصاف سب کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں کے مطابق منظم اور فعال ہوں اور نظم و ضبط کی پابند ہوں تو ایسے المناک سانحوں سے محفوظ بھی رہا جا سکتا ہے۔ حالیہ احتجاجی مظاہرے کے دوران تحریک انصاف کے 4000 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا جن میں ایک بھی ایم این اے یا ایم پی اے یا ان کا کوئی بیٹا شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کارکن ہی قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے آٹھ جیالوں نے اپنے آپ کو نذر اتش کر لیا تھا۔ 2007ءمیں جب بے نظیر بھٹو دبئی سے کراچی تشریف لائی تھیں تو انکے کارواں پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا جس میں ڈھائی سو کارکن جان بحق ہوئے جبکہ پانچ سو کارکن زخمی ہوئے تھے۔ ڈی چوک کے حالیہ احتجاج میں بھی تحریک انصاف کے نوجوانوں نے اپنے قائد کی رہائی کے لیے مبینہ طور پر اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو تاریخ کے تناظر میں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ کسی ایسے احتجاجی مظاہرے میں شامل نہیں ہوں گے جس میں ایم این اے ایم پی اے اور تنظیمی عہدے داران شامل نہ ہوں۔ جب جنرل ضیاءالحق نے 1977ءمیں پاکستان پر مارشل لاءمسلط کیا راقم نے سب سے پہلے داتا دربار لاہور سے 20 جیالوں کے ساتھ گرفتاری پیش کی اور سب سے پہلے اپنے ننگے جسم پر دس کوڑے کھائے۔ جس سیاسی جماعت کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کمزور اور غیر منظم ہو اس کے احتجاجی مظاہرے میں انتہا پسند اور دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے شامل ہو جاتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن