حکومت خوش ہے کہ مہنگائی کی شرح 70 ماہ کی نسبت آج کم تر سطح پر آ گئی ہے۔ شرح سود بھی کم ہو گئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ رہے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضے بھی مل رہے ہیں، غیر ملکی وفود کا آنا جانا بھی شروع ہو چکا ہے۔ خیر سے ہمارے وزیراعظم بھی آئے روز کسی نہ کسی ملک کے دورے پر ہوتے ہیں۔ غیر ملکیوں سے معاہدے اور ایم او یوز بھی سائن ہو رہے ہیں۔ بجلی وافر موجود ہے۔ اب تو اسکے ریٹ بھی کم ہو گئے ہیں وہ علیحدہ بات ہے کہ گرمیوں میں بجلی نایاب اور سردیوں میں وافر ہو جاتی ہے سردیوں میں گیس نایاب ہو جاتی ہے۔ گرمیوں میں بجلی کے بل ادا نہیں ہو پاتے اور سردیوں میں گیس کابل جان نکال لیتا ہے۔ حکومت عوام کی فلاح وبہبود کے لیے روزانہ کوئی نہ کوئی نیا منصوبہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ بظاہر یہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے مضبوط حکومت ہے جس کے ایک اشارے پر ہر اہلکار حکم بجا لانے کے لیے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے اہلکار آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں بھی اتنی تعداد موجود ہے کہ وہ جب چاہے پاکستان کا آئین تبدیل کر دے، جب چاہے جو دل چاہے قانون بنا لے۔ اسے کسی کی روک ٹوک نہیں، نہ ہی اپوزیشن کی کوئی اوقات ہے۔ حکمرانوں کے پاس خواہشات کی تکمیل کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ ہرقسم کے اختیارات رکھنے والی حکومت عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہی۔ایک دیہاتی کا شہر سے ایک دوست اسے ملنے کے لیے گاو¿ں آ گیا۔ دیہاتی نے اسے اڈے سے لیا اور پیدل ہی گاو¿ں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں وہ اپنے شہری دوست کو لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا کہ یہ کھیت بھی ہمارے ہیں یہ کھیت بھی ہمارے ہیں یہ جانور بھی ہمارے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے ہم نے کاماں رکھا ہوا ہے۔ یہ شام کو جانوروں کو باڑے میں لے آتا ہے جہاں وہ دودھ دوہ کر گھر پہنچا دیتا ہے۔ موجاں ہی موجاں ہیں۔ اس دوران وہ گنے کے کھیتوں کے قریب سے گزر رہے تھے دیہاتی نے کہا یہ گنے کے کھیت بھی ہمارے ہیں۔ شہری دوست نے کہا اچھا چلو ایک گنا توڑ کر لاو چوپتے ہیں۔ دیہاتی نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن گنے توڑنے پر جٹ مارتے بہت ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا حکومت کو بھی ہے۔ سارا کچھ اپنا ہے لیکن ایک گنا بھی عوام کو نہیں دے سکتے۔ اگر کہا جائے کہ آپ عوام کے لیے اتنا کچھ کر رہے ہیں ذرا ایک چکر عوام کے پاس سے لگا آو¿ تو کہتے ہیں ناں ناں عوام بہت غصے میں ہیں۔ حکومت کی کوششیں اپنی جگہ لیکن عوام نہ جانے کیوں مطمئن نہیں ہو پا رہے۔ بظاہر کاغذوں میں مہنگائی بدستور کم ہو رہی ہے لیکن جب عوام سے پوچھا جاتا ہے تو وہ مر مرگئے کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ ہزاروں جتن کرلیے، نہ سکون آ رہا ہے نہ حالات میں ٹھہراو¿ آ رہا ہے۔ افراتفری تو چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سٹاک مارکیٹ بام عروج پر ہے لیکن کاروبار نہیں چل رہے۔ بظاہر سرمایہ کاری آ رہی ہے لیکن ہر روز ہزاروں لوگ بیرون ملک جانے کی کوششوں میں لائنوں میں لگ کر پاسپورٹ بنوا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کا سرمایہ اور برین ڈرین ہو رہا ہے لیکن ستے ای خیراں نیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے لیکن سوشل میڈیا ٹھیک نہیں۔ سوشل میڈیا لوگوں میں اطمینان نہیں آنے دے رہا فیک نیوز ماحول خراب کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کو سب سے بڑا دشمن تصور کر لیا گیا ہے۔
اب سوشل میڈیا کی خیر نہیں ویسے سوشل میڈیا بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے کنٹرول میں نہیں آ رہا لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم اس پر کنٹرول کرکے دنیا کو دکھائیں کہ جو کہیں نہیں ہو سکتا وہ ہمارے ہاں ممکن ہے کیونکہ دنیا وہ کچھ نہیں کر سکتی جو ہم کر سکتے ہیں۔ حکومت آخری معرکہ سر کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ ہم نے وی پی این کو حرام قرار دے کر بھی دیکھ لیا لیکن کیا کیا جائے لوگوں کو حرام کھانے کی عادت ہو گئی ہے۔ ہم نے انٹرنیٹ سلو کرکے دیکھ لیا فائر وال لگا کر دیکھ لی یہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آخر چھری کے نیچے آئے گی۔ پتہ تو اب چلے گا جب سب پھڑے جان گے۔ آخر میں سیاسی معاملات میں بڑی تبدیلی نظر آ رہی ہے تحریک انصاف عوامی احتجاج سے پارلیمانی احتجاج کی طرف جا رہی ہے۔ انھوں نے اگلی حکمت عملی تک اپنے کارکنوں کو سانس لینے کا کہہ دیا ہے۔ اب امتحان اراکین اسمبلی اور سینٹ کا ہے بانی پی ٹی آئی نے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلوانے کے لیے ریکوزیش دینے کی ہدایت کر دی ہے۔ اب ایوانوں میں خوب گرما گرمی ہو گی پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلوائے جانے کی توقع ہے لیکن تحریک انصاف کی دال گلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ دباو ڈال کر مذاکرات کی راہ نکالی جائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ بغیر مطالبات مانے تحریک انصاف پر قابو پا لیا جائے۔ اب دیکھتے ہیں کون کیا کرتا ہے اور کس کا حربہ کارگر ثابت ہوتا ہے پاکستانیوں کو سکون صرف قبر میں ہی جا کر ملے گا۔
سب ٹھیک ہے
Dec 04, 2024