اک بلاروز کسی شخص کا سر مانگتی ہے

فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ آج کس پر بات کروں ان سو سے زائد لاشوں پر جو اب تک پارہ چنار میں فرقہ واریت کی جنگ کا ایندھن بن چکی ہیں یا اس فیک نیوز پر مبنی بیانیئے پر جسکے مطابق اسلام آباد کی سڑکوں پر 26 نومبر کو اپنی اپنی اناءکی جنگ میں سینکڑوں غریبوں کی لاشوں کو آسمانی گدھ اٹھا کر لے گئیں۔ جنکا نہ کوئی پتا مل رہا ہے نہ نشان۔
نیرو تو پنجاب میں بھی سکھ کی بانسری بجا رہا ہے لیکن زندہ آنکھیں اب دیکھ رہی ہیں کہ امن کے دشمن خوارج کے دستوں کی سفاکاریاں اب پنجاب کی حدود میں بھی داخل ہو چکیں۔ بدامنی کی انتہاوں کو دیکھنا ہو تو پھر صوبہ بلوچستان میں جسطرح چن چن کر غیر مقامی لوگ تو اپنی جگہ اب مقامی لوگ بھی جس آگ کا ایندھن بننا شروع ہو گئے ہیں اسکی سب سے بڑی مثال ایک دس سالہ بچے کا اغواہ ہے جسے اب دو ہفتے سے اوپر ہو چکے۔ ان سب باتوں کو دیکھتا ہوں تو اپنے پاس بات کرنے کے الفاظ ہی نہیں مل پاتے اور بس ایک خوبصورت انسان محمود غزنوی کے یہ اشعار سامنے آتے ہیں جنکی ترتیب موقع کے حساب سے کچھ آگے پیچھے کی گئی ہے جو کچھ یوں ہیں:
ایسا پہلے تو نہیں تھا مری بستی میں کبھی
اک بلا روز کسی شخص کا سر مانگتی ہے
ایک بیوہ سے بھی اس شہر کی شاہی اب تو
کام کرنے کے عوض تحفہ ءزر مانگتی ہے
خلقت شہر سزا پاتی ہے چوراہے پر
بات کرنے کی اجازت بھی اگر مانگتی ہے
اک بھکاری کی طرح ہاتھ میں کشکول لئے
رات ، تھک ہار کے سورج سے سحر مانگتی ہے
فاختہ ، سادہ و معصوم ہے ، دیوانی ہے
اپنے صیاد سے کاٹے ہوئے پر مانگتی ہے
آپ کا پیار بہت دیکھ لیا ہے ہم نے
زندگی آپ سے اب ازن سفر مانگتی ہے
تو مجھے ، کب ؟ غم فرقت سے رہائی دے گا
اتنے عر صے میں تو دیوار بھی در مانگتی ہے
حکمرانوں سے کہاں لعل و گہر مانگتی ہے
خلقتِ شہر تو اک لقمہ ء تر مانگتی ہے
ایک پیسہ بھی نہیں جیب میں اپنی غزنی
زندگی ہے کہ کسی چاند پہ گھر مانگتی ہے۔
ایک دردِ دل رکھنے والے نے تو اپنا دکھڑا اپنا مدعا اپنی فریاد دنیا اور اللہ کے سامنے رکھ دی لیکن اسے وقت کا جبر ہی کہیں کہ اس سباق طاقتور اور فیصلہ سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ہمارے ہاں دانشور طبقہ کی اکثریت کا یہ المیہ ہے کہ جب بھی طاقتور یا فیصلہ ساز کی ٹرم کسی بھی جگہ استعمال ہوتی ہے تو ہمارا دھیان فورا اسٹیبلشمنٹ کی طرف جاتا ہے حالانکہ پولیٹیکل سائنس کے کچھ دوسرے طالبعلموں کی طرح راقم بھی اس سکول آف تھاٹ سے متفق ہے کہ طاقتور اور فیصلہ ساز صرف اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی بلکہ جب بھی اس بابت بات ہوتی ہے تو اس میں وہ تمام فریق شامل ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی صورت امور مملکت سے منسلک ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی طور وہ ان امور پر اثر انداز بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ذہین دوست یہاں سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اپوزیشن کا شمار کس طرح طاقت اور فیصلہ سازی کے زمرے میں ہو سکتا ہے تو بطور ایک ادنی طالبعلم راقم کا بھی ایک سوال ہے کہ اپوزیشن چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتی ہو چاہے وہ پی ٹی آئی کی ہو نون لیگ کی ہو پیپلز پارٹی کی ہو یا پھر کسی اور سیاسی پارٹی، مذہبی گروہ یا لسانی فرقہ کی ہو۔ جب وہ احتجاج یا آجکل جسے لانگ مارچ اور دھرنے کے نام سے پکارا جاتا ہے تو وہ کس مقصد کیلیئے نکلتی ہے۔ اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت دکھانے کیلئے یہ آپشن اختیار کرتی ہے جسے اس ملک کا آئین یہ اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن آگے چل کر اس سباق یہ خاصا بحث طلب مسئلہ ہے کہ اس بابت اس احتجاج میں جب تشدد گھیراو جلاو اور مارو مر جاو کا عنصر شامل ہوجاتا ہے تو وہ پھر قانون کی نظر میں درست ٹھہرتا ہے یا جرم کے زمرے میں گردانا جاتا ہے؟۔ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس بابت کوئی بھی اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن یہ بات بھی اب حقیقت کی طرح اپنی جگہ موجود ہے اور زمینی حقائق بھی اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ایک سیاسی پارٹی کی طرف جس طاقت کے مظاہرے کا عزم دہرایا جاتا رہا ہے وہ سیاسی عمل کے نام پر سیاسی جدو جہد پر تو بلاشبہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔ لیکن اسکے ساتھ انھیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ آگے چل کر وہ انکی اپنی بقائ پر کیا اثرات چھوڑ سکتا ہے۔ ان سب حقائق کی موجودگی میں کاش ہر کوئی فریق اپنے اپنے سکول آف تھاٹ سے الگ ہو کر یہ سوچے کہ پاکستان کا سکول آف تھاٹ ان سے کس بات کا متقاضی ہے۔ کاش ہر فریق اس وقت گھڑیال کی ان صداوں کو سنے کہ اپنی اپنی اناوں کی جنگ کو چھوڑو اور اس ملک کی بقائ ، سلامتی اور یہاں کے عوام کے امن کیلیئے گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف لوٹ آو۔ صرف ایک پارہ چنار، ایک لورہ لائی، جنوبی پنجاب کا کوئی ضلع یا سندھ کا کچے کا علاقہ آپ سے یہ مطالبہ نہیں کر رہا بلکہ اب تو ہر گلی ہر کوچہ میں ہر پاکستانی یہ کہہ رہا ہے۔ “ ایسا پہلے تو نہیں تھا مری بستی میں کبھی اک بلا روز کسی شخص کا سر مانگتی ہے۔”

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن