وزارت داخلہ کی سفارش پر نیشنل پریوینشن آف وائلینٹ ایکسٹریم ازم پالیسی(پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے قومی پالیسی کی منظوری دیدی گئی۔پالیسی کی منظوری وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔
آج پاکستان میں دہشت گردی پھر سے جڑ پکڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقے بری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ دہشت گردی میں اندرونی عناصر اور بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ایک تو ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشت گردی ہوتی رہی ہے اور بدستور جاری ہے۔دوسرے بلوچ علیحدگی پسند جب اور جہاں موقع ملتا ہے قتل و غارت کر گزرتے ہیں۔ یہ نہ صرف بلوچستان بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی موت کا بھیانک کھیل کھیلتے ہیں۔ فرقہ واریت بھی معاشرے میں سرایت کرتی رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ پالیسیاں بنتی ہیں۔قانون سازی ہوتی ہے۔نیشنل ایکشن پلان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔
فرقہ واریت ایک حساس معاملہ گردانا جاتا ہے۔حکومتیں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات سے گریزاں رہتی ہیں کہ مبادہ اس کا سد باب کرتے کرتے آگ مزید نہ بھڑک اٹھے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ سال سینٹ میں وائلنٹ ایکسٹریم ازم بل 2023ءلایا گیا تھا۔انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے لایا جانے والا یہ بل ارکان کی مخالفت کے باعث اس وقت کے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے ڈراپ کر دیا تھا۔ اس کی زیادہ دفعات وہی تھیں جو قبل ازیں بننے والے قوانین بلز اور ایکٹس کا حصہ تھیں۔ان میں نیکٹا ایکٹ ،انسداد دہشت گردی، فارن ایکسچینج ریگولیشن ،بینکنگ کمپنیز اور منی لانڈرنگ جیسے ایکٹس کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔2023ءکے مجوزہ بل کے مطابق: پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا جبکہ تنظیم تحلیل کر دی جائے گی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی جائیداد اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے، تشدد کی معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا۔ پرتشدد تنظیم کے لیڈرز، عہدیدارن اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا جبکہ حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کی زد میں آنے والے افراد اور تنظیمیں یا ادارے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔ لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کر کے 90 روز تک حراست میں رکھا جاسکے گا تاہم متاثرہ شخص کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہو گا۔ پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاونٹ منجمد کر دیئے جائیں گے۔ مجوزہ بل کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔
یہ بل سامنے آنے پر کچھ حلقوں کی طرف سے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی گئی کہ یہ بل کسی ایک پارٹی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے۔یہ نتیجہ اس بل میں شامل انتہا پسندی کی تعریف سے اخذ کیا گیا جس میں لفظ پولیٹیکل استعمال کیا گیا تھا۔ بل کی مخالفت کرنے والوں میں مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما عرفان صدیقی بھی شامل تھے جن کی رائے کو مخالفین بھی صائب مانتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سینٹر عرفان صدیقی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس بل کا اس حالت میں پاس ہونا ایک شکنجہ ہے جو کسی کے بھی گلے پڑ سکتا ہے۔
گو کہ اس بل کو سینٹ میں پیش کرنے اور اس کے ڈراپ ہونے کے بعد سے اب تک کوئی طویل عرصہ نہیں گزرا مگر اس کے باوجود صورتحال میں بڑا تغیر آچکا ہے۔فرقہ وارانہ انتہا پسندی جو اب کئی علاقوں، خصوصی طور پر ک±رم، پارہ چنار میں شدت پسندی کی بدترین صورت میں سامنے آئی ہے۔اس کے پیش نظر مجوزہ بل کی منظوری ضروری ہو چکی ہے۔کرم ایجنسی پارا چنار میں اب تک فرقہ وارانہ کشیدگی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔مرکزی اور کے پی کے حکومت کی طرف سے مشترکہ جرگہ ہو چکا ہے۔جس میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے بذات خود شرکت کی تھی۔اس میں ساری سیاسی پارٹیوں کی لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ علاقے کے علماءکرام بھی شریک ہوئے تھے مگر اس جرگے کے بھی خاطرخواہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔
وفا قی حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کی شدت پسندی کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آج کے حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں۔لہذا مجوزہ بل کی منظوری ناگزیر ہو گئی ہے۔انتہا پسندانہ سوچ کے سامنے قومی یکجہتی سے ہی بند باندھا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ضروری نہیں کہ جو کچھ بل میں لکھ دیا گیا تھا وہی حرف آخر ہو۔ پارلیمنٹ میں اس پر بھرپور بحث کی جا سکتی ہے پارلیمنٹ کے باہر بھی علمائے کرام اور انٹلیکچولز کی مشاورت سے جامع قانون سازی کی جا سکتی ہے جس کے تحت ہر طرح کی شدت پسندی سے نمٹا جا سکے۔