پاکستان میں گذرے چند برسوں کے دوران کم وسائل رکھنے والے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور تنخواہ دار طبقے نے بہت مشکل وقت گذارا ہے ۔ بدقسمتی سے مشکل وقت ابھی ختم نہیں ہوا۔ وطن عزیز میں عام آدمی کی مشکلات میں کچھ خاص کمی نہیں آئی۔ چونکہ بجٹ گذرے چند برسوں میں جتنا خراب ہوا ہے، آمدن اور اخراجات میں پیدا ہونے والے عدم توازن کی وجہ سے حالات خاصے خراب ہوئے ہیں۔ گو کہ ان دنوں وفاقی ادارہ شماریات نے ایک اچھی خبر ضرور جاری کی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 78 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ادارہ شماریات نے گذرے 78 مہینوں کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں ایک طرح سے یہ خوش آئند ہے کہ کم از کم مہنگائی میں کمی واقع ہو رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایک قدم آگے اور دس قدم پیچھے کیوں جاتے ہیں۔ ان اٹھہتر مہینوں میں کروڑوں لوگوں نے جو اذیت برداشت کی ہے اس کا حساب کون دے گا۔ ویسے ابھی یہ مہنگائی بتائے گئے مہینوں میں کم تر سطح پر آئی ہے لیکن کیا اس سطح پر ہے جہاں آمدن و اخرجات میں توازن آتا ہے۔
ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ نومبر 2024 میں مہنگائی کی شرح 4.9 فیصد کی سطح پر ریکارڈ کی گئی جبکہ اکتوبر 2024 میں مہنگائی 7.2 فیصد پر تھی۔ نومبر 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.2 فیصد تھی جبکہ نومبر 2024 میں شہری علاقوں میں مہنگائی 5.2 فیصد اور دیہی علاقوں میں 4.3 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ گزشتہ ماہ کھانے پینے کی اشیا میں 0.5 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ ماہ ٹماٹر، انڈے، دال مونگ، شہد اور آلو کے نرخ میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔جب کہ گھی، مکھن، ڈرائی فروٹ، مچھلی اور کوکنگ آئل مہنگا ہوا، گندم، ریڈی میڈ فوڈ، مشروبات، گندم کا آٹا، جوتے اور الیکٹرانک کا سامان بھی مہنگا ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات نے یہ بھی بتایا ہے کہ جہاں کچھ چیزیں مہنگی ہوئیں اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ ماہ چکن، دال ماش، سبزیاں اور پھل سستے ہوئے، دال چنا، پیاز، مصالحہ جات، چینی، گْڑ، دال مسور اور چاولوں کی قیمتوں میں کمی بھی ہوئی۔
یہ اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں لیکن توانائی کے شعبے نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، مہنگی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مسائل میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور قیمتوں میں کمی تک عام آدمی کی زندگی میں سکون نہیں آ سکتا۔ ہر ماہ بجلی کے بل کم تنخواہ والوں یا کم آمدن والوں کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، بہت سارے معاملات میں آئی ایم ایف معاہدہ آڑے آتا ہے، اخراجات کم کرنے کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز بند کیے جا سکتے ہیں، وزارتوں کو ضم کیا جا سکتا ہے تو پھر وزیراعظم کرام، مشیران کرام اور سرکاری افسران کی مراعات پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سب قربانیاں دیتے رہیں اور حکمران طبقہ موجیں کرتا رہے۔
مہنگائی میں کمی کے معاملے پر وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی میں کمی آئی ہے، امید ہے عام آدمی پر بوجھ کم ہو گا۔
مہنگائی وہ معاملہ ہے جس سے غریب آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے، مہنگائی میں کمی کے بعد اب ہمیں گروتھ کی طرف بڑھنا ہے ۔ ہم نے چینی کی برآمد کی اجازت دی لیکن قیمت نہیں بڑھنے دی، چینی کی افغانستان اسمگلنگ صفر ہو گئی ہے۔
وزیراعظم کا مہنگائی کو مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم ان میں یہ احساس تو ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وجہ سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ورنہ یہاں تو مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے کھانے پینے پر کنٹرول کے مشورے ملتے رہے ہیں۔ بہرحال حکومت کا امتحان ہے کہ ادویات اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو اس سطح پر لائے کہ کم وسائل والے افراد کی زندگی میں حقیقی معنوں میں آسانی پیدا ہو۔
خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف سندھ کے جنرل سیکرٹری علی پلھ نے پارٹی عہدے اور کور کمیٹی کی رکنیت سے استعفی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی عہدے سے ذاتی مصروفیات کی وجہ استعفیٰ دیا ہے کیونکہ وہ جس عہدے پر فائز تھے اس کے حساب سے پارٹی کو وقت نہیں دے پا رہے تھے۔ عہدے سے علیحدگی کے بعد اب پارٹی کا اور کوئی ورکر اس عہدے اور ذمہ داری کے ساتھ ان سے زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر اتنے باشعور نہیں ہیں، انہیں لوگوں کو انگیج کرنا نہیں آتا، رابطے کا فقدان، حالات کے مطابق فیصلوں کا نہ ہونا، جو خود متحد ہو کر نہیں بیٹھ سکتے وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیسے بامقصد و بامعنی بات چیت کر سکتے ہیں۔ وہ ہر وقت بیان بازی پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاست پریس کانفرنس سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں اور پی ٹی آئی قیادت بدقسمتی سے حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
آخر میں پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
اْنکے اندازِ کرم اْن پہ وہ آنا دِل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دِل کا
نہ سْنا اْس نے توجہ سے فسانہ دِل کا
عْمر گْزری ہے مگر درد نہ جانا دِل کا
کْچھ نئی بات نہیں حْسن پہ آنا دِل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پْرانا دِل کا
وہ مْحبت کی شْروعات، وہ بے تھاہ خْوشی
دیکھ کر اْنکو وہ پھولے نہ سمانا دِل کا
دِل لگی دِل کی لگی بن کے مِٹا دیتی ہے
روگ دْشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دِل کا
میرے پہلو میں نہیں آپکی مْٹھی میں نہیں
بے ٹھکانا ہے بْہت دِن سے ٹھکانہ دِل کا
وہ بھی اپنے نہ ہْوئے دِل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا دِل کا
بے جھجک آ کے مِلو ہنس کے مِلاؤ آنکھیں
آؤ ہم تْم کو سِکھاتے ہیں مِلانا دِل کا
نقش بر آب نہیں وہم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مِٹانا دِل کا
حسرتیں خاک ہْئیں مِٹ گئے ارماں سارے
لْٹ گیا کوچ جاناں میں خزانہ دِل کا
لے چلا ہے میرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو مْمکن ہی لوٹ کے آنا دِل کا
اْنکی محفل میں نصیر اْنکے تبسْم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دِل کا