لاپتہ افراد کیس انتہائی اہم، حل پارلیمنٹ نے نکالنا ہے، خود کو سپریم ثابت کرے: آئینی بنچ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ، دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلی ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پاکستانیوں کے غیر ملکی بینک اکاؤنٹس سے متعلق اور کراچی گرین بیلٹ پر گرڈ سٹیشن کی تعمیر از خود نوٹس نمٹا دیے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں لاپتہ افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، لاپتہ افراد کے کیسز ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں، لوگوں کی زندگیاں ہیں، ہزاروں لوگ لاپتہ ہے، یہاں اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ جیسے سیاستدان کھڑے ہیں، اس مسئلہ کا حل پارلیمنٹ نے نکالنا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس نے کہا کہ  کابینہ میں لاپتہ افراد کا معاملہ گزشتہ روز ڈسکس ہوا ہے، کابینہ نے سب ذیلی کمیٹی بنا دی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی، حکومت لاپتا افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بیان بازی سے حل نہیں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے اب تک کتنی ریکوریاں کی ہیں۔؟ جسٹس حسن اظہر رضوری نے کہا کہ کیا کوئی لاپتا افراد کمیشن کے پاس ڈیٹا ہے کس نے افراد کو لاپتہ کیا، جو لاپتہ لوگ واپس آئے کیا انہوں نے بتایا کون اٹھا کر لے کر گیاجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لاپتہ افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، لاپتہ افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات میں آرام کے لیے گئے تھے۔ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک ڈیپ سٹیٹ بن گیا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت میں سیاسی بات نہ کریں، پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلے کو حل کریں۔ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا لاپتہ افراد کے معاملے کو 26 ترمیم کی طرح حل کیا جائے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاپتہ افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قوم اور عدالت آپ پارلیمنٹرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔  اعتزاز احسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ کے تحریک انصاف کے لوگ بھی اٹھائے گئے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے آکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لیکر گیا؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جو اٹھائے گئے ان کے بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ لاپتا افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی مسنگ ہوگیا۔جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کے ایک کلاسک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے، بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر لاپتا افراد گھر آگئے۔ عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا اور مقصد یہ تھا اگر آرمی سے کوئی ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے، اگر دیگر ادارے ملوث ہیں تو ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔ لاپتا افراد کے کسی مقدمے کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرات پیدا کریں، لاپتا افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو۔ لاپتا افراد کے کچھ کیسز میں افراد ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، لاپتا افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے  کہاکہ ہم لاپتا افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لاپتا افراد کا حل یہ ہے اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے لہذا پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں تو کون اٹھائے گا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ جو لاپتا ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  آپ سے ریکارڈ کے مطابق پوچھیں گے، آپ سے پوچھیں گے آپ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔ غیر ملکی اکائنٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی آر کو ریکوری میں مشکل ہے تو پارلیمنٹ کو ترمیم تجویز کرے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ جن سے ریکوریاں ہوئی کیا ان کیسز کے میرٹ پر فیصلہ ہوئے، جس پر وکیل ایف بی آر نے جواب دیا کہ میرٹ پر ریکوریوں کے کیسز کے فیصلے ہوئے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ غیر ملکی اکاؤنٹس کیس میں عدالت سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خلاف بھی استدعا کی گئی، توبہ ہے کیا ایسی استدعا سپریم کورٹ سے کی جا سکتی ہے؟۔عدالت نے قرار دیا کہ گرڈ سٹیشن گرین بیلٹ پر تعمیر نہیں ہوا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گرڈ اسٹیشن کو وہاں سے ہٹا دیا جائے تو کیا علاقہ مکین پارک سے راکٹ گزاریں گے، گرڈ سٹیشن کو ہٹانے سے پورا علاقہ بجلی سے محروم ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن