لکی مروت میں رہائشی علاقے میں قائم عارضی فوجی چھاﺅنی پر شدت پسندوں کے حملے اور خودکش دھماکے میں گذشتہ روز 13 سکیورٹی اہلکار اور 12 شہری جاں بحق ہو گئے جبکہ جوابی کارروائی میں 12 شدت پسند بھی ہلاک ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے دس افراد کا تعلق ایک ہی گھر سے ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق 25، 30 شدت پسندوں نے سرائے نورنگ کے علاقے میں محکمہ انہار کی رہائشی کالونی میں قائم پاکستانی فوج کی یونٹ کو نشانہ بنایا۔ ڈی ایس پی لکی مروت کے مطابق شدت پسند جدید اسلحہ اور دستی بموں سے لیس تھے اس موقع پر حملہ آوروں اور سکیورٹی اہلکاروں کے مابین کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس میں سکیورٹی فورسز کے 13 اہلکار جاں بحق اور 17 زخمی ہوئے جبکہ 12 شدت پسند بھی مارے گئے جن میں سے چار کی نعشیں سیکورٹی اہلکاروں کے قبضے میں ہیں ۔ان میں سے دو دہشت گردوں نے خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں جبکہ انہی شدت پسندوں میں سے ایک خودکش حملہ آور نے ایک گھر میں گھس کر دھماکہ کر دیا جس کے نتیجے میں گھر میںموجود 10 افراد جاں بحق ہو گئے ان میں تین خواتین، تین بچے اور چار مرد شامل ہیں، اسی طرح ایک شدت پسند نے ایک دوسرے گھر میں گھس کر فائرنگ کر دی جس سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے بعد سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے لکی مروت کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر کے سرچ اپریشن شروع کر دیا ہے تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے فوجی چھاﺅنی پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ کالعدم تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس سلسلہ میں بی بی سی کو فون پر رابطہ کر کے بتایا کہ اس کارروائی میں چار خودکش حملہ آوروں نے حصہ لیا تھا۔ شدت پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کی اس واردات کے بعد ہفتے کی شام شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں بھی ایف سی چیک پوسٹ پر جدید اسلحہ اور راکٹ لانچر سے حملہ کیا گیا تاہم فورسز کی فوری کارروائی کے باعث یہ حملہ ناکام بنا دیا گیا جبکہ اپر اورکزئی میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ایک فوجی افسر اور سکیورٹی اہلکار سمیت دو افراد جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے اس حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں سات شدت پسند مارے گئے۔ ایک ہی دن شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتوں میں مجموعی 46 افراد کی جانیں ضائع ہونا جہاں دہشت گردی کے نتیجہ میں ملک میں پیدا ہونےوالی بدامنی کی انتہائی تشویشناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے وہیں یہ صورتحال ہماری سکیورٹی فورسز کیلئے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے دعوﺅں کے باوجود خود بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں اور بھاری جانی نقصان اٹھا رہی ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے جہاں ڈرون حملوںپر پاکستان کی اعلیٰ عسکری اور حکومتی قیادتوں کا تکلفانہ احتجاج جاری ہے وہیں یہ بھی تسلیم کیاجاتا ہے کہ ان ڈرون حملوں کی کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کو مٹانے میں کامیابی واضح ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل میں ملک میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے ۔اسکے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نہ صرف ڈرون حملے برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ کسی بھی دباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈرون حملوں میں شدت بھی پیدا کی جا رہی ہے اور امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے گذشتہ روز بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے دفاع کی خاطر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈرون حملے جاری رہیں گے، ان کے بقول امریکہ نائین الیون کے حملوں کے بعد سے اب تک حالتِ جنگ میں ہے اور اس تناظر میں ڈرون حملوں کو القاعدہ کے خلاف اپریشن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اگر امریکہ نے پاکستانی عسکری اور حکومتی قیادتوں سے مشورے اور مشاہدات کے بغیر ڈرون حملوں کے ٹارگٹ مقرر کرنے کا سلسلہ برقرار رکھا تو ہماری سرزمین پر انسانی خون کی اسی طرح ارزانی رہے گی اور ہماری سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے ہاتھوں ممکن ہے پہلے سے بھی زیادہ بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑے۔ اس صورتحال میں تو ملک کی عسکری قیادتوں کو سکیورٹی اداروںمیں موجود خامیوں اور سکیورٹی لیپس پر اب تک قابو پا لینا چاہئے تھا تاکہ دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے والے اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کا مزید کوئی موقع نہ مل سکتا مگر لکی مروت فوجی یونٹ اور اپر اورکزئی میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشت گردوں کے کھلم کھلا حملوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جی ایچ کیو، کامرہ ائر بیس، کراچی نیول ہیڈ کوارٹرز، مہران ائر بیس اور سکیورٹی فورسز کے دیگر اہم مراکز پر دہشت گردوں کے منظم حملوں میں جو سکیورٹی لیپس سامنے آئے تھے اور دفاع کی جن کمزوریوں کی نشاندہی ہوئی تھی نہ صرف اب تک ان پر قابو نہیں پایا گیا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز کے اداروں میں موجود مزید کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں، اس تناظر میں قوم کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ قوم کا پیٹ کاٹ کر دفاعی بجٹ میں افواج پاکستان کیلئے ملک کے دفاع کے نکتہ نظر سے بھاری رقوم مختص کرنے کے باوجود وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے دفاع کے تحفظ میںبھی کامیاب نہیں تو ان سے ملک کے دفاع کے تقاضے نبھانے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے قوم کے ذہنوں میں پیدا کیے گئے آج بھی تحفظات موجود ہیں اور اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے کے معاملہ میں عوامی ہی نہیں عسکری حلقوں میں بھی متضاد آراءپائی جاتی ہیں تاہم ملک کی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے مستقل نجات دلانے کی خاطر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کو آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک برقرار رکھنے کا عزم باندھا ہے تو قوم کو اب اس جنگ کے مثبت اور دوررس نتائج بھی تو نظر آنے چاہئیں اس کے برعکس جب قوم کو اس جنگ میں سکیورٹی فورسز کا اپنا بھاری جانی اور مالی نقصان نظر آتا ہے تو اس کے ذہنوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومتی اور عسکری قیادتوں کی طے کردہ حکمتِ عملی کے بارے میں مزید شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے شمالی وزیرستان کے بعض علاقوں میں اپنے اہلکاروں کے اغوا اور ان کی سرکٹی نعشیں ملنے کے افسوسناک واقعات کے بعد عملاً شمالی وزیرستان میں بھی اپریشن شروع کیا جا چکا ہے جس کےلئے امریکہ دھمکی آمیز لہجے میں ہمارے حکمرانوں سے تقاضہ بھی کرتا رہا ہے تو اس اپریشن کو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت بننا چاہئے چہ جائیکہ کہ خود سکیورٹی فورسز کو بھاری نقصانات اٹھنا پڑیں جبکہ اس صورت میں دفاع وطن کے حوالے سے قوم کا سکیورٹی فورسز پر اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔ عسکری قیادتوں کی جانب سے ابھی ایک ہفتہ قبل ہی قوم کو یہ مژدہ سُنایا گیا کہ قبائلی علاقوں میں اپریشن کے نتیجہ میں دہشت گردوں کے 80 فیصد سے زیادہ ٹھکانوں کو تباہ کر کے امن و امان کی بحالی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے مگر حقیقت حال اس کے قطعی برعکس نظر آتی ہے اور لکی مروت اور اپر اورکزئی میں سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان پہنچانے والی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے دہشت گردوں کی حکمتِ عملی ہماری سکیورٹی فورسز کی حکمتِ عملی کے مقابلہ میں زیادہ مو¿ثر ہے کیونکہ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں جدید ترین بھاری اسلحہ اور راکٹ لانچرز تک لے کر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانوں سے ہی نہیں کھیلتے، سکیورٹی اداروں میں موجود حساس تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر دہشت گرد حکومتی رٹ کو بھی مسلسل چیلنج کر رہے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے دفاعی حصار کو بھی توڑتے اور اپنے مقاصد حاصل کرتے نظر آتے ہیں تو کیا ضرورت نہیں کہ حکومتی اور عسکری قیادتوں کی مشترکہ طور پر اختیار کردہ دفاعی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسے ملکی اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ہم کب تک ملک کے شہریوں اور سکیورٹی فورسز کا جانی اور مالی نقصان برداشت کرتے رہیں گے جبکہ سکیورٹی فورسز کی کمزوریوں کے باعث اب ملک کے دفاع کے حوالے سے بھی سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں، یقیناً اب دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے حکومتی اور عسکری قیادتوں کو کوئی حتمی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا ، چاہے یہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اپریشن کی صورت میں ہو یا امریکہ کی طرح ان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی سے نجات کا کوئی راستہ ڈھونڈا جائے۔ دہشت گردی ہمارے لئے بہر صورت وہ ناسُور بن چکی ہے جسے پھیلنے سے نہ روکا گیا تو ملک کے پورے وجود کو سخت خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ سکیورٹی فورسز کے خلاف گذشتہ روز کے دہشت گردی کے واقعات دہشت گردی کے خاتمہ کی کسی جامع اور قابل عمل حکمتِ عملی کے ہی متقاضی ہیں۔