کچھ دنوں سے ایک چرچا تھا کہ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کر دئیے وہ انکشاف کر دئیے۔ نہ جانے میرا دھیان اس طرف کیوں نہیں گیا۔ شاید یہ وجہ تھی کہ ایک طرف مَیں صوبوں کے قیام پر سوچ رہا تھا اور دوسری طرف 5 فروری کی آمد پر کشمیر اور یوم کشمیر کی طرف خیال تھا۔ اس ہفتہ کا کالم گو 5 فروری سے ایک دن قبل شائع ہونا ہے اس لئے طے تھا کہ مسئلہ کشمیر ہی کو سپرد قلم کروں گا لیکن ہفتہ (2 فروری) کی دوپہر بذریعہ ڈاک ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ مل گئی۔ متذکرہ کتاب کے نام کے نیچے ایک اور جملہ بھی نام ہی کا حصہ بنا ہوا تھا ”ایک سپاہی کی داستانِ عشق و جنون“ یہ کتاب ہمیں ایک پیارے دوست نے راولپنڈی سے بھجوائی۔ وہ دوست جو جرنیلوں کی ہمسائیگی میں اپنے تعلیمی ادارے کے ذریعے علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب اور حوالوں کی طرف سے قبل ایک چھوٹا سا سوال جو دل و دماغ میں ابھرا ہے وہ کہیں گم نہ ہو جائے لہٰذا اسے پہلے قلم و قرطاس کے حوالے کر لینا غلط نہ ہو گا۔ آخر سب جرنیلوں اور بیورو کریٹس کو یہ عشق حقیقی ریٹائرمنٹ کے قریب ہی کیوں ہوتا ہے؟ عہد شباب میں حقیقت پردہ نشین کیوں رہتی ہے اور عشق کی گرمی دنیا داری اور مصلحتوں میں برف کیوں بنی رہتی ہے؟ پھر جرنیلی تو سو فیصد اُستروں کی مالا کا نام ہے کسی رومانوی ہار کا نہیں! سپاہی ہو کہ جرنیل اس کا قدم قدم جہادی اور لمحہ لمحہ قربانی ہوا کرتا ہے، پھر اسکی ہر سانس کے ساتھ کلمہ حق کا اعلان بھی ہوتا ہے --- وہ جرنیل اور سپاہی جس کا تعلق ہی بین الاقوامی فکری چوک کی سرزمین سے ہو اور اس کی دھرتی نظریاتی مٹی سے متشکل ہو۔ بس! اس سے زیادہ سوال نہیں۔ اس سے آگے فقط یہی کہیں گے کہ تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہئے! یہ کتاب 463 صفحات پر مشتمل ہے اور آخر میں چند صفحات تقریباً 7 ضمیمے بھی اپنے سینے پر کندہ کئے ہوئے ہیں جو حیرانی و پریشانی کے دریچے کھولتے ہیں۔ تلخ حقائق پر مشتمل اس آپ بیتی میں جہاں کڑواہٹ ہے وہاں کچھ رہنمائی بھی ہے۔ اس کے اوراق آمریت کے خلاف نفرت کو ہَوا دیتے ہیں اور سیاستدانوں کیلئے آنکھیں کھول کر چلنے کا سبق بھی۔ راقم نے ”را“ اور موساد کے حوالے سے چند ایک کتابیں زمانہ طالب علمی میں بھی پڑھیں اور آج بھی شکنجہ یہود کو سمجھنے کی بحیثیت طالب علم کوشش جاری ہے پھر جنرل (ر) حمید گل سے بھی امریکی چالاکیوں اور بدمعاشیوں کو سمجھنے کی بہت کوشش کی۔5 فروری پر قارئین کرام! مذکورہ کتاب میں سے پہلا اقتباس کشمیر کے حوالے سے آپ کی نذر کیا جاتا ہے جس سے نتیجے اخذ کرنا آپ کیلئے بہت آسان ہو جائے گا اور ساتھ ہی معلوم ہو جائے کشمیر کی آزادی اور اس کیلئے جہاد کتنا ضروری ہے۔ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ آزادی کشمیر میں رکاوٹ کون سی سوچ ہے۔ پھر باطل کی سوچ کو بدلنے کیلئے نئی پود کو 5 فروری کے عہد اور فکر کے متعلق سیاق و سباق سے روشناس کرنا کتنا ضروری ہے : ”افغانستان میں فوجی کارروائی اس نوعیت پر کیں کہ مجاہدین کو پاکستان میں دھکیلا جا سکے۔ پھر ویسے ہی کیا جیسے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کی ایجنسی موساد کے مشورے پر ہندوستان نے کیا تھا۔ یہاں کشمیری مجاہدین جیسی تنظیمیں تشکیل دی تھیں، پھر ان سے بازاروں میں بم پھٹوائے، شہریوں کو نشانہ بنایا، لڑکیوں پر تیزاب پھینک کر کہا کہ پردہ کیوں نہیں کرتیں۔ گھروں سے لڑکیاں اغوا کیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ یہ سب اسلام کے نام پر کیا تاکہ مجاہدین کو بدنام کریں اور عوام کو ان کی طرف سے متنفر کر دیں۔ آج یہی کھیل پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے۔ ”را“ اور موساد کا یہ گھناﺅنا کھیل ہمارے ”دوست“ اور سٹریٹجک ساتھی امریکہ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو تمام تفصیلات معلوم ہیں مگر انہوں نے اپنے ذاتی مفاد میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔“ سن 1948ءمیں لاہور میں پیدا ہونے والے جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپریل 1971ءمیں فوج میں کمشن لیا تھا، جنرل بننے کے بعد آئی ایس آئی میں تجزیاتی شعبہ کے سربراہ رہے۔ ڈائریکٹر ملٹری آپریشن بھی خدمات سرانجام دیں۔ سن 1999ءمیں سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے میں ان کا دفتر پیش پیش تھا۔ نائن الیون کے بعد چیف آف جنرل سٹاف کا منصب بھی ان کے پاس رہا۔ سروس کے آخری دو سال لاہور کے کور کمانڈر رہے۔ بعد از ریٹائرمنٹ تقریباً ڈیڑھ سال نیب کے سربراہ بھی رہے۔ عوام انہیں جنرل مشرف کے قریبی افسران میں سمجھتے رہے، تھے بھی، لیکن اس وقت بھی کبھی کبھی کہیں کہیں اپنی مختلف رائے رکھتے تھےایک جگہ تعلیم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہوتے ہیں کہ ”ہمارے سکولوں کے تعلیمی نظام میں دینی تعلیم کا ایسا نصاب بنایا گیا ہے کہ 15 سال میں بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھ کر ہمیں دین کا کچھ پتہ نہیں چلتا اگر غریبوں کے بچے مدارس میں نہ پڑھتے تو پاکستان سے دین مٹ چکا ہوتا۔ ہمیں قرآن پڑھنا نہ آتا اور نہ کسی کا نکاح پڑھا جاتا اور نہ جنازہ، یقیناً دین کا یہ رنگ درست نہیں مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم دین ہی چھوڑ دیں؟ کیا اس امن کے پیکر کو خیرباد کہیں اور مغربیت کی راہ اختیار کریں؟“ کسی جرنیل کا مُلا عمر کو خراج تحسین پیش کرنا اور کھل کر خراج تحسین پیش کرنا، پھر اپنے دور کے آرمی چیف اور آمر حکمران پرویز مشرف پر بے لاگ تبصرہ کرنا، پرویز مشرف کی کتاب پر تنقید کرنا، اس کا مطلب واقعی یہی بنتا ہے کہ قوم کو گمراہ کرنے والوں کی خبر لی جائے اور آئندہ کیلئے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے اس کے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ آخرکار جنرل شاہد عزیز امریکہ سے ”ہاتھی مویا سوا لاکھ کا“ بن کر قبر کی دیواروں تک مراعات اور ”آشیرباد‘ نہیں چاہتے ورنہ سیلوٹ کی عادت تو مرتے دم تک طاقتور اور بالا کو سر سر کہنے کے مرض میں مبتلا کر دیتی ہے۔ میرا شروع میں خیال تھا کہ یہ کتاب کہیں خود ستائشی کا نمونہ ہو اور پاک فوج کیلئے جگ ہنسائی کا موقع فراہم نہ کرے لیکن مطالعہ کے بعد کھلا یہ راز کہ نوجوان افسران، بیورو کریسی، محب وطن پاکستانیوں اور سیاستدانوں کے علاوہ طالب علموں کیلئے اس میں ”راز“ کم اور اسباق زیادہ ہیں۔ ایک جرنیل نے ہر موضوع کی سرخی ایک مصرع سے جما کر کتابی حُسن اور تحریری رعنائی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے مشرف ازم کے نعرے ”سب سے پہلے پاکستان“ کو دوغلا نعرہ قرا دیا تو مجھے پرویزی دور کے طارق عظیم، محمد علی درانی، شیخ رشید، طارق عزیز، چودھری پرویز الٰہی و شجاعت حسین، مشاہد حسین سید کے علاوہ ق لیگ کے ن لیگ و تحریک انصاف کی جانب مُڑے لوٹے بھی یاد آ گئے۔ اللہ اللہ کتنے گیت گاتے تھے یہ سب پرویز مشرف کے! واشنگٹن کو قبلہ ثابت کر کے دین اکبری سے بڑھ کر دینِ پرویزی کی کوشش کو مصنف نے آڑے ہاتھوں لیا پھر میڈیا کی ”میڈیا گری“ کے مخصوص طریقوں کو سامنے لایا گیا اور مشرف دور میں آزاد میڈیا کو ”آزاد خیالی“ پر ابھارنے کی کاوشوں کا پردہ چاک کیا گیا۔ یہ سب ضروری تھا اور جنرل (ر) شاہد عزیز نے درست کیا ورنہ ابہام جانے کب تک رہتا اور کئی آزاد خیالوں اور ”ہم خیالوں“ کے لہو اور ان کی نسلوں میں سرایت کر جاتا۔ قارئین محترم! میں کارگل محاذ کی باریکیوں کو کالم کے سینے پر کندہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اختصار سے کام لوں گا، تو ابہام جنم لیں گے۔ جنرل محمد عزیز، جنرل محمود، جنرل ضیاالدین، جنرل طارق مجید، جنرل یوسف اور جنرل توقیر ضیاءکی باتوں اور خیالات کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔ میرا خیال ہے کہ حساس باتوں کو ادھورا کرنے یا بے احتیاطی سے فہم کے سب دریچے نہیںکھلتے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک فوج پر عوامی اعتماد برقرار رہنا چاہئے یہ کسی طرح بھی صفِ اول کی نمبر ون فوج سے کم نہیں۔ ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف آتے جاتے رہے لیکن پاک فوج کا اعتماد، جذبہ، حب الوطنی اور اسلام پسندی کا گراف ہمیشہ بڑھتا رہا۔ بھٹو سے نواز شریف تک نے بھی فوج سے فائدہ اٹھایا اور بدنام بھی کیا۔ کارگل محاذ سے اس وقت کا وزیراعظم اتنا بھی بے خبر نہیں تھا اور وہ وزیراعظم ہی کیا جو بے خبر ہو؟ امید واثق ہے جنرل کیانی جمہوریت اور فوجی فراست کیلئے متوازن ہی رہیں گے اور پاک فوج ہمیشہ سلام کے قابل ہے۔ پاک فوج کو سلام! اہل دل یاد رکھیں کہ بہرحال کشمیر پاکستان کی شہ رگ!