پختون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ موومنٹ کے زیراہتمام پنجاب یونیورسٹی کے پٹھان سٹوڈنٹس کی تقریب مسلم لیگ ن کے رہنما ارشد خان نیازی کے گھر پر ہوئی۔ وہ پختون نہیں ہیں مگر پٹھان تو ہیں۔ میں بھی بنارسی پٹھان ہوں۔ پٹھانوں (نیازیوں) اور پختونوں کے اتحاد کے لئے یہ تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ اس شاندار تقریب کو پختون نائٹ کہا جاتا ہے۔ اسے ارشد خان نیازی نے پٹھان نائٹ بنا دیا۔ مقررین نے پاکستان کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا۔ یہاں پختو یعنی پشتو میں بھی تقریریں ہوئیں اور پھر پشتو میں بولنے والے مقرر نے اردو میں بھی تقریر کی۔ پشتو ہمارے ایک صوبے پاکستانی علاقے خیبر پختون خواہ میں بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ مادری زبان ہے۔ پہلے اسے علاقائی زبان کہا جاتا تھا۔ پنجابی سندھی بلوچی زبان علاقائی زبانیں تھیں۔ مگر اب انہیں پاکستانی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پشتو بلوچستان کے ایک بڑے علاقے میں بھی بولی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں پشتو کے علاوہ ہندکو بولی جاتی ہے جو پنجابی کے قریب ہے۔ میانوالی میں نیازی پٹھان جو زبان بولتے ہیں وہ پنجابی ہے مگر ہندکو اور سرائیکی کے قریب ہے۔ لیکن آپ کسی علاقے میں چلے جائیں اردو زبان سے کام چل جائے گا۔ اردو زبان کا مستقبل پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ بین الاقوامی زبان ہے۔
پشتو بولنے والے سمجھتے ہیں کہ اردو اور انگریزی زبان کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ ان کی تنظیم کا نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ پختون طالب علموں کے لئے ایجوکیشن کی ڈویلپمنٹ چاہتے ہیں کئی پختون سٹوڈنٹس نے انگریزی میں بھی تقریر کی۔ ان کے لہجے اور انداز میں ان کی انگریزی اچھی لگ رہی تھی۔ انہوں نے اردو بھی بولی اور وہ بھی پیاری لگی۔ جب انہوں نے پشتو بولی تو مجھے پشتو اب نہیں آتی مگر مجھے یہ سمجھ آ رہی تھی کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ خیالات اور جذبات کی ہم آہنگی کی وجہ سے تھی۔
کامل آغا اور سلیم کاکڑ سینئر سیاستدن ہیں۔ کوئٹہ سے ارشد خان کے گھر Pedکے اجلاس میں آئے تھے۔ اتنے سارے پختون اور پٹھان دیکھ کر خوشی ہوئی مگر یہ بھی محسوس ہوا کہ یہاں کوئی خاتون سٹوڈنٹ نہ تھی۔ میرے علم میں ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے بلوچ سٹوڈنٹس کی طرح پختون اور پٹھان سٹوڈنٹس کے لئے بھی بہت آسانیاں اور مراعات فراہم کی ہیں۔ بلوچ لڑکیوں کے لئے قطعی بات معلوم نہیں مگر پٹھان لڑکیاں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ پشتو بولتے ہوئے چند لڑکیوں کو میں نے سنا ہے۔ پختون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ موومنٹ پوری طرح آگے نہیں بڑھ سکی۔ عبدالمعز خان نیازی نے مجھے بتایا کہ نیازی پٹھانوں اور پختونوں میں الائنس کے لئے ارشد خان نے بہت کوشش کی ہے۔ جواد مندوری صمد خان کے علاوہ جواد شاہ قابل ذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے شاہ بھی پٹھانوں میں ہوتے ہیں۔ جب ایک پٹھان کو نسوار کھاتے ہوئے مکہ مکرمہ میں ایک شرطے (کنسٹیبل) نے پکڑ لیا اور عربی میں ڈانٹا، گرفتار کرنے لگے تو پٹھان نے کہا سبحان اللہ مجھے پہلی بار پتہ چلا ہے کہ ہماری نسوار کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ پٹھان کے لئے خوشی کی بات تھی۔ اس نے گرفتاری دے دی۔
ایک نوجوان پٹھان قابل خان کی تقریر نے بہت مزہ کیا۔ وہ بہت خلوص سے بول رہے تھے۔ اس نے پانچ وقت نماز باجماعت پڑھنے پر زور دیا۔ پٹھان غصے میں آ کر قتل بھی کر دیتے ہیں۔ مگر نماز وقت پر باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ان کے جذبوں کو چینلائز کر کے بڑے بڑے کام لئے جا سکتے ہیں۔ قابل خان نے یہ بھی کہا کہ میں نوجوانوں سے پھر کہوں گا کہ پانچ وقت نماز پڑھو اور بے شک کتاب نہ پڑھو تم امتحان میں پاس ہو جائو گے۔ میں نے بعد میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قابل خان کے خلوص پر یقین ہے مگر میں سٹوڈنٹس سے کہوں گا کہ نماز ضرور پڑھو مگر کتاب بھی پڑھو۔ اگر تم فیل ہو گئے تو قابل خان ذمہ داری قبول نہیں کرے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ قابل خان اصل میں کابل خان ہے۔ قابل خان کہتا ہے کہ وہ کابل جا چکا ہے۔ اور بغیر کچھ پڑھے ہوئے جا چکا ہے۔ وہ بہت امیر اور دردمند پٹھان ہے۔ مہمان نواز اور خوش اخلاق ہے۔ ڈرانے والا بھی نہیں لگتا مگر اس سے خواہ مخواہ ڈر لگ رہا تھا۔
وہاں مجھے جا کے اچھا لگا۔ کئی پگڑیاں بھی نظر آئیں اور مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے بھی کچھ لوگ نظر آئے مجھے ایک بار ڈاکٹر مجید نظامی نے بتایا تھا کہ میانوالی کے نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان نے کہا کہ میں نے میانوالی کے نیازی پٹھانوں کے مقابلے میں مونچھیں رکھی ہیں۔ اب میانوالی کے ایک پٹھان سیاستدان عمران خان نے نواب کالا باغ کی پوتی عائلہ ملک کو قومی اسمبلی کے لئے ٹکٹ دیا تھا اور اس کے کزن وحید ملک کو ٹکٹ دیا مگر وہ ہار گیا۔ اعوان بھی اپنے آپ کو پٹھانوں سے کم نہیں سمجھتے۔ میانوالی ایک زمانے میں پختون ضلع پختون کی تحصیل تھی اور کالا باغ میانوالی کا علاقہ ہے۔ پٹھانوں پختونوں اور اعوانوں سے میری گذارش ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم بنوانے کے لئے مل کر جدوجہد کریں۔ یہ ڈیم پورے پاکستان کے لئے ایک نعمت ہو گا۔
پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے پروفیسر غالب عطا نے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی نمائندگی کی۔ اب وہ پنجاب یونیورسٹی میں اپنے گھر کے ساتھ پختون اور پٹھان سٹوڈنٹس کے لئے بھی ایک استقبالیہ دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بلوچ سٹوڈنٹس کے لئے ایک شاندار تقریب اپنے گھر کے لان میں کی تھی۔ جہاں یونیورسٹی اور شہر کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ اس حوالے سے لاہور کے بلوچ ڈپٹی کمشنر امین مینگل نے صدارت کی تھی۔ وہ پنجاب لاہور میں اپنے بلوچ سٹوڈنٹس سے مل کر خوش ہوئے تھے۔ کارپوریشن کے پی آر او معروف شاعر ڈاکٹر ندیم گیلانی نے مجھے بتایا کہ مینگل صاحب کے زمانے میں لاہوری بڑے خوش تھے۔ نجانے اب وہ کہاں ہیں۔ میں سوچتا رہ گیا کہ ان کا بلوچ سیاستدانوں اختر مینگل سے کیا رشتہ ہے؟
بہت اچھے کھانے کے بعد سب لوگوں نے پختون نائیٹ یعنی پٹھان نائیٹ منائی۔ سٹوڈنٹس اور بڑی عمر کے پٹھانوں نے روائتی ڈانس کیا جسے بھنگڑا کہنا چاہئے۔ قابل خان اور میں نے بھی ڈانس میں حصہ لیا۔ مجھے ناچتے ہوئے دیکھ کے لوگ حیران ہو رہے تھے۔ جب ڈھول بجتا ہے تو ناچنے کو دل کرتا ہے۔ بہت نامور فریڈم فائٹر ویتنام کے حریت پسند لیڈر ہوچی منہ نے کہا کہ ’’جو ناچنا نہیں جانتا وہ لڑنا بھی نہیں جانتا۔