کون جاہل کہتا ہے کہ پاکستان قدامت پسند اور پسماندہ ہے۔ ہمارے دیہاتوں‘ گاﺅں‘ گوٹھ‘ چک‘ بستیوں اور وسیب میں بھی وہ جدید معاشرتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جو واشنگٹن‘ ٹورنٹو‘ اوٹاوہ اور نیویارک میں ہوتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو سید نور‘ تنویر ظہور‘ حزیں قادری یا ڈاکٹر طاہرالقادری سے پوچھ لیں۔ دینی جماعت کے دھرنوں اور مائیکل جانسن یا میڈونا کے میوزک کنسٹرٹوں کے تھرکنوں میں کتنی مماثلت اور جدید یت ہے۔ کوئی وزیراعلیٰ گانے گاتا اور کوئی ٹھمکے لگاتا ہے مگر دقیانوسی اوباما پھر بھی پاکستان نہ آیا حالانکہ پاکستانیوں کا سٹینڈرڈ اتنا بلند ہے کہ وہ کسی پر فقرے چُشت کرتے اور پھبتیاں کستے نہیں تھکتے۔ واشنگٹن میں جو آزادی نسواں ہے‘ وہ وہاڑی تو وہاڑی ہمارے وطن کے ہر ”دیہاڑی“ لگانے والے مزدور کے گھر میں ہوتی ہے۔ جب دن بھر کا تھکا ہارا‘ مصیبت کا مارا مزدور گھر میں داخل ہوتا ہے تو سو سے زائد چینلز پہ گانے اور رقص و سرود کی محفل بارہ بچوں کے ساتھ سجانے والی بیوی کو کھانا لانے کیلئے کہتا ہے تو دن بھر ”لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم ‘ میں نہ لگاﺅں گی ہاتھ رے“ سننے والی بلکہ ذہن نشین کرنے والی بیوی جو اس بات کی توقع رکھے کہ خاوند آکر ہی اس کے بال سنوارے گا اور خاوند کو یہ بھی خدشہ ہو کہ بپھری ہوئی بیوی کہیں سوتے ہی تیل چھڑک کر آگ ہی نہ لگا دے یا پھر درجن بھر بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار نہ ہو جائے۔ اس لئے وہ ازدواجی زندگی برقرار رکھنے کیلئے سر پر پٹی باندھی ہوئی بیوی کو دیکھ کر عافیت اسی میں سمجھتا ہے کہ چپکے سے ہانڈی چولہے پہ خود ہی دھر لے کیونکہ کپڑے پھاڑ کر‘ شوروغل مچا کر آجکل کی ان پڑھ مگر جدید سوچ کی مالک خواتین‘ میٹر ریڈر کو گھر میں چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم کو اور ہیروئن بیچنے والی اینٹی نارکوٹکس والوں کو غرضیکہ ڈاکہ ڈالنے والی عورتیں بھی کپڑے پھاڑ کر کبھی کترینہ‘ کبھی کرینہ کپور اور کبھی دیپکا اور ایشوریا رائے بن کر محض بے حس لوگوں کو ہی نہیں بلکہ حساس لوگوں کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور اگر کبھی قسمت کی ماری اور دل ہاری جوڑی پکڑی بھی جائے تو سرخیاں لگتی ہیں کہ سرعام نازیبا حرکات کرتے ہوئے آج کچھ جوڑے دھر لئے گئے یا پھر ایسے قابل گرفت الفاظ لکھے جاتے ہیں کہ رنگ رلیاں مناتے ہوئے یا دادعیش دیتے جوڑے کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے قانون کی گرفت میں لے لیا اور پھر کبھی کبھی یہ خبر بھی نظر میں آجاتی ہے کہ تھانے کے کچھ اہلکار بھی دوران تفتیش قابل تشویش حالت میں ملوث ہونے کی وجہ سے قانون شکن مجرموں کے ساتھ حوالات میں بند کر دیئے گئے ہیں۔کیا ان حالات و واقعات کی روشنی میں ہم واشنگٹن کو وہاڑی سے زیادہ ماڈرن سمجھ سکتے ہیں حتیٰ کہ دیکھنے میں تو یہاں یہ بھی آتا ہے کہ کوئی ننگ دھڑنگ لاہور کالج سے کنیئرڈ کالج اور پھر ہوم اکنامکس کالج پہ جا کر اپنی کیٹ واک ختم کر دیتا ہے اور یہ کام نیویارک یا واشنگٹن میں نہیں ہوتا مگر یہ اعزاز ہمیں حاصل ہے کہ ایسے نظارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لوگوں کے تفنن طبع کیلئے کبھی کبھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں اور پولیس والے لاٹھیاں پکڑنے کے باوجود ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوکر بے حال ہوجاتے ہیں۔خیر ہم موازنہ کر رہے تھے امریکہ کے دارالخلافہ واشنگٹن اور اپنے پسماندہ ضلع وہاڑی کا‘ واشنگٹن بھی دریا کے ساتھ آباد ہے اور وہاڑی بھی دریا کے ساتھ آباد ہے۔ واشنگٹن میں یونیورسٹیاں ہیں‘ وہاڑی میں بھی ٹاپ کی دو یونیورسٹیاں اور دو بہترین کالج ہیں جہاں بقول استاد دامن
کُڑی منڈے نال اینج لگی پھردی اے
جیویں الجبرے نال جیومیٹری اے
واشنگٹن میں بھی گھروں کے دروازوں کی بجائے دو تین فٹ کی باڑ ہوتی ہے اور ہمارے دیہاتوں میں تو کواڑ ہی نہیں ہوتا۔ وہاں بھیEny Body Home کہہ کر کوئی بھی گھر میں داخل ہو جاتا ہے اور یہاں صرف ” کھنگورا“ مار کر کوئی اندر آ جاتا ہے۔ ایک دفعہ کسی پروفیسر کو جو کسی سوچوں میں گم تھے‘ کسی گدھے نے جس کو امریکہ میں عقلمند اور ذہانت کا پیکر مانا جاتا ہے زور سے دولتی ماری‘ جواباً انہوں نے پورے زور سے گدھے کو دولتی مارکر اور گالی دیکر کہا ہم کسی سے کم ہیں؟ واقعی وہاڑی واشنگٹن پہ بھاری ہے۔ وہاڑی والوں کے پاس اتنے موبائلز ہیں کہ جس کا واشنگٹن والے تصور بھی نہیں کر سکتے اور اسی ترقی پہ مشرف کو ناز ہے کہ کمی کمین اور خاکروبوں کے پاس بھی موبائل ہے۔ جو دہشت گردی کا بھی باعث ہے اور ہمارے وزیراعلیٰ کا بیشتر حصہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی بچیوں کے سر پر دست شفقت پھیرنے اور والدین کے گھروں میں جانے پہ صرف ہو جاتا ہے۔ کیا اوباما کے وطن میں ایسا ہوتا ہے؟؟؟