روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں چھپنے والے میرے کالموں کے حوالے سے کوئٹہ سے بلوچستان کے مشہور ادیب و دانشور جناب آغا گل نے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حوالے سے جس دَرد، دُکھ اور غم و غصہ کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ ایک حقیقت ہے ایک کڑوا سچ ہے ملاحظہ فرمائیے۔
کوئٹہ کے لوگ پہلے ریچھ اور کتوں کی لڑائی دیکھا کرتے تھے، اب وہ نہایت ہی ذو ق شوق سے ٹاک شو میں لڑتے ہوئے سیاستدان اور Pseudo Intellectual کو دیکھتے ہیں۔ ہم سبھی بحری جہاز ٹائی ٹینک پہ کھڑے ڈوبنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انکے پاس تو دہری شہریت ہے۔انکے محلات، کارخانے، پلازے غیر ممالک میں ہیں۔ یہ سبھی تو سٹک جائینگے۔ جنت نشاں پاکستان کو دوزخ بنا رکھا ہے ان شیاطین نے، آپ فکر نہ کریں نہ تو سقراط مرا اور نہ ہی سپارٹیکس ہاں ان کو مارنے والے مر گئے۔ آپ جیسے انسان کتابوں میں،دلوں اور ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں۔ آپ ایک عظیم انسان ہیں۔ ایک Gareater Cause کے لئے کام کر رہے ہیں۔
عالی جاہ بلوچستان حکومت مسلسل سیکشن PPC 212 کا جرم کرتی چلی آ رہی ہے، بقول انکے قاتل نامعلوم مقام سے فون کرکے بتلاتے ہیں کہ فلاں دہشتگرد جماعت نے قتل کیے ہیں۔ دنیا میں اب کوئی بھی نامعلوم مقام نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ہر سیٹیلائیٹ موبائل کاغذات پورے کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کا بل بھی ادا کیا جاتا ہے۔ کم از کم چھ سیٹیلائیٹ ایسے سیٹیلائیٹ فون سے منسلک رہتے ہیں۔ سیٹیلائیٹ تو کار، موٹر کا نمبر اور اسکی نقل و حرکت بتلاتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ زمین پر پڑی ایک کیل کی تصویر بھی بنا لیتے ہیں۔ پھر یہ ڈرامہ کیسا وہ قاتلوں تک کیوں نہیں پہنچتے؟ مجرموں اور قاتلوں کو چھپائے رکھنے میں کیا مصلحت ہے؟
انسانوں کا لہو بہایا جا رہا ہے جوکہ مالی کرپشن سے بھی بڑا جرم ہے، یہ سوال آپ اپنے کالم روزنامہ نوائے وقت / سپوتنک میں ضرور اٹھائیں ۔ برس ہا برس سے بلوچستان حکومت بیانات داغ رہی ہے۔‘‘ لیکن؟
آغا گل صاحب نے بلوچستان کے مسائل میں سے چند نکات پر گفتگو فرمائی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حکمران طبقات وہی لوگ ہیں جو انگریزوں کے کاسہ بردار ہوا کرتے تھے جاگیردار، وڈیرے، تمن دار اور سردار ،نواب وغیرہ اب ان کی نئی نسل جو پاکستان میںسیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہے ان کا آج بھی عوام کے ساتھ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے انگریزوں نے ان کے بزرگوں کے ذریعے عوام کو غلام بنایا اور پونے دو سو سال برصغیر پر حکومت کی۔ ویسے ہی یہ پاکستانی عوام کوغلام بنا کر بادشاہت قائم لی۔ اگر غور کیا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے بزرگوں نے عوام کے ساتھ غداری کی اور اسکے صلے میں مراعات حاصل کیں۔ انگریز نے انہیں ہمیشہ اپنے جوتے کے نیچے رکھا لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ لوگ مادر پدر آزاد ہوگئے اور پاکستان کو اس حال پر پہنچا دیا جس کا تذکرہ آغا گل صاحب نے اپنے خط میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کچھ عرصے اور رہتی اور انکے ساتھی کھوٹے سکوں کی بجائے کھرّے سکے ہوتے تو آزادی کے فوراً بعد انگریزوںکے مراعات یافتہ طبقات سے وہ تمام جاگیریں، عہدے، منصب وغیرہ واپس لے لیے جاتے اور انہیں اور انکی نسلوں کو پاکستان کی سیاست سے دور رکھا جاتا یہ بھی کچھ عرصے ایک عام انسان کی طرح زندہ رہتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ زندگی کتنی تلخ حقیقت کا نام ہے۔
میں آغا گل صاحب سے بڑے ادب سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا برصغیر کی تقسیم سے قبل بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خواہ سے تعلیم، صحت، خوراک، روزگار وغیرہ میں برابر تھا؟ میرا دوسرا سوال ہے 1940ء سے 1947ء تک انگریزوں کے دور میں بلوچستان کا سالانہ بجٹ کیا تھا؟ اور 47ء سے 1957ء تک بلوچستان کا بجٹ کیا رہا ہے؟ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی درسگاہیں کتنی تھیں اور اب کتنی ہیں؟ میرا چوتھا سوال یہ ہے کہ آزادی سے قبل صنعت، تجارت، صحت اور سڑکوں وغیرہ کی بلوچستان میں کیا صورتحال تھی اور آج کیا ہے؟ میرا پانچواں اور آخری سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق وفاقی نظام حکومت میں ساحل اور معدنیات جسے وسائل کا نام دیا جا رہا ہے کس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں؟ اگر آپ ان سوالات کے حوالے سے اعدادو شمار سامنے رکھیں، تو آپ کو آزادی کے ثمرات صاف صاف نظر آئیں گے اور یہ بھی نظر آئیگا کہ یہ پیسہ کہاں گیا؟ آغا گل صاحب کی یہ بات دُرست ہے کہ بلوچستان کے بھائیوں میں احساس محرومی موجود ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے سے پہلے لسانی تعصب اور لوٹ لیا، کھا گئے وغیرہ کے حالات پیدا کئے گئے تھے اب بلوچستان میں بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ جناب آغا گل صاحب ہمیں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ بلوچستان میں نکلنے والا سونا امریکی ریکوڈیک نامی کمپنی کیساتھ برائے نام رقم کے عوض ٹھیکے پر کس سردار نے دیا تھا؟ اور بدلے میں کیا کچھ لے رہے ہیں؟ پاکستان میں آجکل حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور نام نہاد سیاسی لٹیروں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
دشمن بڑی کارروائی کرکے بلوچستان پر قبضہ کرنا چاہتاہے تاکہ وہ پاکستان کو بھی بنگلہ دیش بنا سکے اور ’’اکنامک کوری ڈور‘‘ کے منصوبے کو ناکام بنا سکے۔ بلوچستان کے عوام کو خوشحالی سے روک سکے۔ اب یہ لڑائی کھل کر سامنے آ چکی ہے ادھر پاکستانی سیاستدان جوتیوں میں دال بانٹ رہے ہیں بجائے متحد ہو کر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے دشمن کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر متفقہ ایجنڈا بنا تھا اسے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں قومی مفاد میں ایمرجنسی لگا کر ملک دشمن قوتوں کے منصوبہ کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے
کڑوا سچ
Feb 04, 2016