آج کے جدید اور کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی موجودہ ارباب اختیار نے اپنے ساڑھے تین سال مکمل ہونے کے بعد بھی ٹیکس گذاروں کی تعداد میں اضافے کے لئے اور دستاویزی معیشت کو عملی صورت میںلانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا بلکہ کبھی فائلر اور نان فائلر میں تفریق کرکے ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کی اورکبھی ایڈہاک ازم پر وقتی فیصلے کئے یا ٹیکس گذاروں کے ریفنڈز روک کر مثبت اعدادوشمار دکھانے کی کوشش کی گئی اسکے علاوہ موجودہ ارباب اختیار نے اپنے ساڑھے تین سالوں میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی عملی و حقیقی کوششوں کے بجائے دو ایمنسٹی اسکیمیں لاکر اس خلا کو پر کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ گذشتہ سال متعارف کی گئی ایمنسٹی اسکیم جس کو عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر نام تبدیل کرکے پیش کیا گیا وہ اس قدر ہزیمت کا شکار ہوئی کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد تین ہندسوں تک بھی نہیں پہنچ سکی تھی ۔ اگر ہم دسمبر2016میں لائی جانے والی نئی ٹیکس اسکیم سے پہلے ماضی میں پاکستان میں لائی گئی ایمنسٹی اسکیموں کا مختصراً جائزہ لیں توہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صرف 1958میں پیش کی گئی ٹیکس ایمنسٹی ہی پاکستان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی تھی مگر اس کے بعد کی تمام ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں بری طرح فلاپ ہوئیں۔ صدر ایوب خان اپنے دورمیںلوگوں کے درمیان خوف پیداکرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے اس وقت پاکستان کا ریونیو جی ڈی پی کا سات فیصد ہوگیا تھا اور 71289افراد ٹیکس گذاروں میںشامل ہوئے تھے۔ دوسری ایمنسٹی اسکیم 1969 میں صدر یحییٰ خان کے دور میں آئی جس کی وجہ سے 19600مزید افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے اور اس وقت ہمارے ریونیو کا حصہ جی ڈی پی کاصرف 1.52فیصد رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تیسری ایمنسٹی اسکیم کا اعلان ہوا جس کی وجہ سے جی ڈی پی میں ٹیکس ریونیو کا حصہ 2.2فیصد رہا۔ چوتھی ایمنسٹی اسکیم صدر ضیاءالحق کے دور میں پیش کی گئی مگراس سے پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے ٹیکس نیٹ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔1992میں بھی ایمنسٹی اسکیم آئی جوکہ بے مصرف ثابت ہوئی ۔
1997میں نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا مگر اس سے صرف 141ملین روپے حاصل ہوپائے اور اس سال ہمارا کل ریونیو 103بلین روپے ہوا ۔ 2008میں پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی ایسی ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی گئی مگر یہ بھی طے کردہ اہداف حاصل نہیں کرپائی اور اس وقت 2.8بلین روپے کا ریونیوحاصل ہوا۔ موجودہ دور حکومت میں ٹریڈرز کے لئے بھی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹریڈرز کی تعدادپینتیس لاکھ سے زائد ہے مگر FBRمیں رجسٹرڈ ٹریڈرز کی تعداد صرف 135000ہے جبکہ ٹریڈنگ کا شعبہ جی ڈی پی میں 19فیصدکا حصہ دار ہے مگر ٹریڈرز کے ٹیکس کی شرح صرف 0.05فیصد ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر ٹریڈرز ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ۔ اسی طرح زرعی شعبہ کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے مگر یہ شعبہ تو ٹیکس کے دائرے سے مکمل طور پر باہر ہے۔
اب تازہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اجراءکیا گیا ہے جس کے تحت صرف تین فیصد کا ٹیکس ادا کرکے اپنے 97فیصد کالے دھن کو سفید کیا جاسکے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی سے ملتی جلتی اسکیم نواز شریف صاحب نے اپنے 1992کے دور حکومت میں بھی پیش کی تھی جو کوشش لاحاصل ثابت ہوئی تھی۔ تازہ ایمنسٹی اسکیم میں حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001میں اک نئی شق شامل کرنے کے لئے ترمیمی ایکٹ 2016جاری کیا ہے جس کے تحت تمام جائیدادوں کی خریدوفروخت میں اس کالے دھن کو استعمال کیا جاسکتا ہے اوروہ بھی صرف تین فیصد کی ادائیگی کرتے ہوئے مگر اتنی کم شرح پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان اس سے پہلے دنیا کے کسی ملک میں نہیںکیا گیا۔جیسا کہ پڑوسی ملک بھارت نے بھی ٹیکس ایمنسٹی کا اجراءکیا تھا جس کے تحت غیر ٹیکس شدہ رقم کی پچاس فیصد ادائیگی کر کے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوا جائے گاجبکہ مزید پچیس فیصد کی ادائیگی حکومت کے غریب افراد کے لئے مقرر کردہ فنڈکے لئے کی جائے گی مگر اس کے ساتھ ہی پچیس فیصد رقم کی واپسی چار سالوں میں ہوسکے گی ۔اسپین میں 2012میں ایمنسٹی اسکیم لائی گئی جس کے تحت دس فیصد رقم کی ادائیگی پر رجسٹریشن ہوئی۔اسی طرح انڈونیشیا میں بھی ایمنسٹی اسکیم کا کئی بار اجراءہوااور 2016میں بھی اسکیم پیش کی گئی جس سے انڈونیشیا کو381بلین ڈالرزکا فائدہ ہوا۔ٹیکس ایمنسٹی اسکیم دراصل ٹیکس آمدنی میںرضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنے کی ایک حکمت عملی ہے اور یہ ان اثاثوں پر دی جاتی ہے جو دانستہ ظاہر نہیں کئے جاتے مثلاً نقد رقوم اور وہ تمام کرنسی جو بینکوں یا سرکاری دستاویز میں ظاہر نہ کی گئی ہومگر میں یہ تحقیق کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے غیرمنقولہ جائیداد پر ٹیکس ایمنسٹی نہیں دی ہے مگر ہمارے ہاں اس اسکیم کے آنے سے جائیداد مافیا کے وارے نیارے ہوگئے ہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ کراچی، لاہور، اسلام آبار اور دیگر بڑے شہروں میں پلاٹوں اور بنگلوں کی قیمتیں 2016کے بجٹ سے پہلے کی قیمتوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں ۔ مثال کے طور پر ڈیفنس کراچی میں ہزار گز کا پلاٹ مارچ، اپریل یا مئی 2016میں آٹھ سے دس کروڑروپے کے لگ بھگ تھا وہ جائیدادوں کے نئے قانون کے آنے کے بعد تقریباً چھ سے سات کروڑ روپے کی سطح پر آگیا تھا اور اسی طرح پانچ سو گز کا پلاٹ جو تقریباًچھ کروڑ روپے کے قریب تھا وہ کم ہوکر ساڑھے چار کروڑ کی سطح پر آگیا تھا مگر اب اس شاندار ایمنسٹی اسکیم کے اجراءکے بعد ایک ہزار گز کا وہی پلاٹ اس وقت 13-14کروڑ روپے اور پانچ سو گز کا پلاٹ سات سے آٹھ کروڑ روپے میں فروخت ہورہا ہے۔
تجربے اور مشاہدے نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں جیسا چاہے نام بدل کر آئیں پر ان سب کا مصرف ومقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ ناجائز دولت کوتحفظ دیا جائے اور بدعنوان عناصر کو نوازا جائے جس کی تازہ مثال بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی کی ہے جن کے تحقیقات کے بعد ڈیفنس کراچی میں بائیس بنگلے نکلے جبکہ وہ صرف دو ارب روپے دے کر باعزت رہا ہوگئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے بااختیار لوگوں نے پاکستان میں ان کالے قوانین کے تحت کتنے فوائد حاصل کئے ہوں گے۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں سزاوجزا کا تصور ختم ہوجائے وہاں انارکی پھیلنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔جبکہ ہم اس جلیل القدر اورعظیم الشان پیغمبرﷺ کی امت اور نام لیواہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ اگر جرم فاطمہ بنت محمدﷺ بھی کرے گی تواس کو بھی اپنے کئے کی سزا ملے گی"۔ مگر اس کے برعکس ہم کبھی ایمنسٹی اسکیموں اور کبھی بارگیننگ قوانین کے ذریعے سزا وجزا کے قانون سے بچ جاتے ہیں اور کبھی استثنیٰ مانگتے ہوئے عدل وانصاف سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ان ہی قول وفعل کے تضادات نے آج ہمیں دنیا کی پست ترین قوموں میں تبدیل کردیا ہے اور جن قوموں ومعاشروںنے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی عدل وانصاف کا نظام نافذ کیااور سزاوجزا کے تصور کو اپنایا ہے وہی تعمیر وترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔