امریکی صدر ٹرمپ اور آسٹریلوی وزیراعظم کے مابین ایک گھنٹے کی ٹیلی فونک گفتگو شیڈول تھی مگر 25 منٹ بعد ٹرمپ نے کال کاٹ دی۔ اس دوران ٹرمپ وزیراعظم ٹرن پر برستے رہے۔ ٹرن نے اس معاملے پر خاموش اختیار کی تاہم اندر کی بات یہ باہر آئی کہ آسٹریلیا متعدد ممالک کے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ آسٹریلیا نے پناہ گزین جو آسٹریلیا جانا چاہتے تھے اوباما سے امریکہ لے جانے کو کہا تھا۔ ٹرمپ اب آسٹریلیا سے سوال کر رہے ہیں کہ کیوں؟ اسی پر ٹرمپ کا پارہ چڑھ گیا۔ پناہ گزینوں کے تحفظ کے حوالے سے آسٹریلیا کا ریکارڈ ساری دنیا سے برا ہے۔ آسٹریلیا میں ایران، عراق اور افغانستان سے زیادہ پناہ گزین جاتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار سے بھی کچھ لوگوں کو آسٹریلیا میں پناہ دی گئی ہے مگر ان کو قیدیوں کی طرح ناﺅرو اور پاپوانیوگنی نامی جزیروں کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ ٹرمپ امریکہ میں اپنے اقدامات کے باعث ایک انقلاب یا طوفان برپا کئے ہوئے ہیں۔ انکی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جس کے وعدے اور دعوے انتخابی مہم کے دوران کئے تھے۔ پاکستان کیلئے انکے ہاں نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ان کی ٹیلی فونک گفتگو پاکستان کے نکتہ نظر سے حوصلہ افزاءتھی۔ دوسری طرف آسٹریلیا کا پاکستان کے ساتھ رویہ ہمیشہ تضحیک آمیز رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا پر توہین آمیز اشتہارات ”نوٹُو پاکستان“ شائع کرائے گئے۔ پاکستان کے مقابلے میں آسٹریلیا کا بھارت کی طرف زیادہ رجحان رہا ہے۔ انڈیا اور آسٹریلیا میں سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی سمیت دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیلئے ٹرمپ کا امریکہ بہتر ہے یا ٹرن کا آسٹریلیا۔ شاید ٹرمپ اتنے برے نہیں ہیں جتنا برا آسٹریلیا نے خود کو پاکستان کیلئے ثابت کیا ہے تاہم آسٹریلوی ہائی کمشنر ذاتی طور پر ایک شائستہ خاتون ہیں۔
مدارس کو قومی دھارے
میں لانا وقت کا اہم تقاضہ
مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کی زیرصدارت مدارس اصلاحات کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وزیر مذہبی امور اور وزیرتعلیم نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں مدارس کے تعلیمی نصاب پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مشیر قومی سلامتی مدارس سے متعلق پیکیج تیار کرینگے۔
یہ پیکیج یقینا مدارس کی تنظیموں اور سکالرز کے ساتھ رابطوں ہی سے تیا رہوگا۔مدارس میں زیرتعلیم طلباءکسی سے کم نہیں ہیں مگر کچھ حالات اورمجبوری کے باعث مدارس میں جاتے ہیں،خاص نکتہ نظر رکھنے والے لوگ بھی مدارس کو ترجیح دیتے ہیں۔ناصر جنجوعہ درست کہتے ہیں۔ بلا امتیاز مدارس کے طلباءکیلئے تمام شعبہ زندگی کی راہیں کھلنا چاہئیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے مواقع ملنے چاہئیں۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنیوالے بھی اس دھرتی کیلئے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مدارس کے طلباءکو برابری کے مواقع دے۔مدارس حکومت کیلئے تعلیم کے میدان میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ اگر مدارس کا کردار منفی کر دیا جائے تو شرح خواندگی مایوس کن نظر آئیگی۔ ملک میں مختلف مسالک کے مدارس کی تعداد ہزاروں میں اور طلباءکی لاکھوں میں ہے تعلیم کی آڑ میں کچھ عناصر مخصوص ایجنڈے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ بعض مدارس میں شدت پسندی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ایسے مدارس کی تعداد ہو سکتا ہے ایک فیصد سے بھی کم ہو مگر یہ دوسروں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ انہی کو دہشتگردی کی نرسریاں قرار دیا جاتا ہے۔ انکے کرتا دھرتا معائنے کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں۔ ان کیخلاف کڑے اقدامات‘ ان کو قومی دھارے میں لانا اور بچوں کو دینی کے ساتھ جدید تعلیم آراستہ کرنے سے ان مدارس کی سکریننگ کے مرحل بھی طے ہو جائینگے اور فروغ تعلیم میں یہ ہماری ضرورت بھی بن جائینگے۔ تمام مکتبہ ہائے فکر کے دینی قائدین کو اس معاملے میں ہر سطح پر حکومت کی حمایت کرنی چاہیے۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے
سپریم کورٹ میں درخواست
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملکی پانی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناگزیر ہے۔ ملک اس وقت توانائی کے شدید بحران میں ہے، مگرمفاد پرست سیاست دانوں نے بھارتی ایجنڈے کے مطابق کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنا دیا اور حکمرانوں نے اس ڈیم کی تعمیر کیلئے قومی اتفاق رائے کی گرہ لگا دی جو ”نہ 9 من تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی“ کے مصداق کالاباغ ڈیم سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہے اور صنعتوں کا پہیہ بھی توانائی کے بحران سے جامد ہوچکا ہے اس لئے قومی تعمیر و ترقی کا یہی تقاضا ہے کہ کالاباغ ڈیم سمیت تمام مجوزہ ڈیمز پر بغیر کسی ردوکد کے کام شروع کر دیا جائے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس پر پہلے ہی اربوں روپے کی لاگت سے ابتدائی کام مکمل ہو چکا ہے اس لئے اس منصوبے کی تکمیل میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دے چکی ہے جس کی بنیاد پر مشترکہ مفادات کونسل نے بھی کالاباغ ڈیم کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا مگر حکمرانوں نے بدستور قومی اتفاق رائے کو اپنی مجبوری بنا کر اس ڈیم کی تعمیر کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ اس ڈیم پر قومی اتفاق رائے تو نوائے وقت گروپ کیجانب سے کرائے گئے قومی ریفرنڈم کے ذریعے سامنے آچکا ہے اس لئے اس ڈیم کو مفاداتی سیاست کی نذر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ حکومت اس کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو کالاباغ ڈیم کے حق میں سرنڈر کر دے تو بہتر ہوگا۔ اگر بھارت پاکستانی دریا¶ں کے پانی کی بوند بوند روک کر پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلنے پر تُلا ہوا ہے تو کالاباغ ڈیم پر سیاست کرنا چہ معنی دارد؟