کینسر ساری دنیا میں پائی جانے والی ایک مہلک بیماری ہے۔ جو دل کی بیماری کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ میں سب سے زیادہ پھیپھڑوں کے کینسرکا وجہ تمباکو نوشی ہے۔ برطانوی کینسر ریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال چھیانوے لاکھ مرد کینسرسے مر جاتے ہیں۔ کینسرسے خواتین کی نسبت مردوں میں مرنے کا خدشہ پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے ۔ آلودہ آب و ہوا اور ناقص خوراک بھی کینسر کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ کئی ہارمونز کا بلاوجہ استعمال کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ عورتیں کا ایسٹر وجینز کا زیادہ عرصہ تک استعمال کینسر بن جاتا ہے۔ اینابولک سٹیرائیڈز کا استعمال اور ایمیول سسٹم کودبانے والی ادویات کینسر کا ذریعہ بنتی ہیں۔پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو ایشیاء کے تمام ملکوں سے سب سے زیادہ ہے۔ ہر سال پاکستان میں نوے ہزار سے زائد خواتین اس مرض کے علاج کیلئے ہسپتالوں سے رابطہ کرتی ہیں ۔پنک ربن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر نویں عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے اور ہر سال چالیس ہزار عورتیں اس بیماری کی وجہ سے مرجاتی ہیں ۔ چھاتی کے سرطان کی جلد تشخیص پر صحت یابی کے امکانات نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر سال 4فروی کر دنیا بھر میں کینسر ڈے منایا جاتا ہے اس موقع پر کینسر اگاہی سیمینارزاور واک ریلی بھی نکالی جاتی ہیں۔ کینسر جیسے مہلک مرض کی اگاہی کے لیے ماہرین طب سے کی گئی گفتگو نذرقارئین ہے۔
ماہر امراض ناک، کان اور گلا پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف تارڑ نے بتایا’’ منہ کھولیں تو سامنے حلق نظر آتا ہے جسے عام طور گلا کہا جاتا ہے ۔ گلے کی کئی بیماریوں کے علاوہ اس میں کینسر بھی ہوسکتا ہے۔ لیرنکس جہاں سے آواز پیدا ہوتی ہے عام طور پر لوگ اس کو بھی گلا سمجھتے ہیں‘ جب آواز بیٹھ جاتی ہے تو کہتے ہیں میرا گلا بیٹھ گیا ہے ۔ سانس کی نالی اور وائس باکس کا کینسر کافی مشہور ہے۔ لیرنکس کے کینسر کی علامات میں آواز کا بیٹھنا، اس میں اضافہ ہونا، یہاں تک کے آواز کا بند ہوجانا لیرنکس کینسر کی نمایاں علامت ہے۔ ایسی صورت میں فوراً ماہر امراض ناک کان گلا سے رجوع کریں۔ شروع میں کینسر لیرنکس کے اندر رہتا ہے پھر گردن میں گلٹیاں بن جاتی ہیں اسے لمف نوڈ کینسرکہتے ہیں۔اگر کینسر بڑھ جائے تو سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ کینسر کی مختلف چار سٹیجز کے مطابق اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ لیرنکس کینسر کی شکایت عام طور پر چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے اور جو لوگ ایک عرصہ سے اور تواتر سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں یا ڈرنکرز ہیں ان میں اس کینسر کے ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ لیرنکس کا کینسر عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ معدے کی تیزابیت کے مرض جن کے حلق میں معدے کا تیزاب آتا ہے اور مسلسل آتا ہے ان میں اس قسم کے کینسر ہونے کا رسک ہوتا ہے۔ لیرنکس میں ٹیومر کا کچھ حصہ لے کر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔ اور ٹیومر کی تفصیل جاننے کیلئے سٹی سکین اور ایم آر آئی بھی کیا جاسکتا ہے بائیوپسی ٹیسٹ کی رپورٹ کے بعد علاج پلان کیا جاتاہے۔ اگر ٹیومر چھوٹا ہے تو اس کی ریڈیو تھراپی کی جاتی ہے اور اگر ٹیومر بڑا ہو تو پہلے اس کا سائز چھوٹا کرنے کیلئے اس کی De-Bulking کرنے کے بعد ریڈیو تھراپی کی جاتی ہے جس کے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ٹیومر بڑا ہو تو بعض اوقات پوری لیرنکس بھی نکالنی پڑسکتی ہے۔ ایسی صورت میں سانس کی مصنوعی نالی باہر سے گلے میں مستقل لگائی جاتی ہے۔جن مریضوں کی پوری لیرنکس نکل جاتی ہے اور ان کے بولنے کی صلاحیت کا مسئلہ بنتا ہے اس کے لیے کئی ٹیکنیکس استعمال کرکے بولنے کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔اگر ٹیومر بڑا ہو اور لیرنکس سے باہر گردن تک پھیلا ہو تو لیرنکس کی سرجری کے ساتھ گردن کی سرجری بھی کرنا پڑتی ہے، آخری سٹیج کے کینسر میں مجموعہ تھراپی ریڈی ایشن اور سرجری بھی کی جاتی ہے۔ گردن میں گلٹیوں کی صورت میں palliation تھراپی کرنا پڑتی ہے یا پھر ریڈایشن، کیمو تھراپی اور سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیرنکس کے کینسر چھپے ہوتے ہیں اگر علامات کے ظاہر ہوتے ہی ان کا ابتدائی سٹیج پر علاج کرلیاجائے تو یہ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ لیرنکس کینسر بچوں اور عورتوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آواز بیٹھ جائے تو اس کو نظر انداز مت کریں ۔ آواز بیٹھنے کے ساتھ سانس لینے میں دشواری لیرنکس کے سنگین مرض کی نمایاں علامت ہے‘‘۔
ماہر امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجیدا ختر نے بتایا’’ پھیپھڑوں کا کینسر زیادہ تر سگریٹ نوشی ، آلودگی کے علاوہ بہت سی مہلک بیماریوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے اور کینسر کا سبب بنتی ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں مریض کی علامات میں کھانسی ، بلغم میں خون ، سانس لیتے وقت شدید درد ، وزن کا گھٹنا ، تھکاوٹ محسوس ، کندھوں اور بازوؤں میں درد ، گردن اور چہرے پر سوجن اور سانس کی آواز سیٹی کے بجنے کی طرح سنائی دیتی ہے۔بیماری کیتشخیص کے لیے چھاتی کا ایکسرے اور سی ٹی سکین کیا جاتا ہے۔ برونکوسکوپی ضرور کی جائے تاکہ پھیپھڑوں کی طبعی حالت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ مریض کا مؤثر علاج سرجری‘ کیموتھراپی ، ریڈیو تھراپی اور بایولوجیکل تھراپی گھر والوں کی مدد سے ممکن ہے۔ ریڈی ایشن کا عمدہ انتظام بھی مؤثر علاج کے لئے ضروری ہے۔ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں پھیپھڑوں کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ڈھائی سو فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب مرض دوسرے تیسرے درجے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔
ماہر امراض جلد پروفیسر شہباز آمان نے بتایا’’ جلد کاکینسر انتہائی مہلک بیماری ہے۔ اس بیماری میں عام طور پر چہرے کی جلد زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اگر متواتر علاج کیا جائے تو پچانوے فیصد جلد کینسر کے مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں اور گھریلو اشیاء میں کینسر پیدا کرنے والے مادے، انڈسٹریز سے فضلات وغیرہ کی بدبو ہوا میں کینسر کے جراثیم پھیلاتے ہیں۔ دھوئیں میں بے شمار زہریلے مادے جلد کاکینسر پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں آلودگی زیادہ ہے وہاں جلد کے کینسر کے مریض نسبتاً زیادہ ہیں۔ بہت سی جلدی بیماریاں جن سے ٹشوز کے سیل تباہ ہو جاتے ہیں کینسر جیسے مہلک مرض پیدا ہوتے ہیں۔ جلد کے کینسر کی ایک اور وجہ حیاتین اور نمکیات کی کمی اور زیادتی بھی ہو سکتی ہے۔ جلد کے کینسر کی علامات میں جلد پرایک ابھار جو بعد میں بڑھتے بڑھتے بڑا زخم (رسولی) بن جاتا ہے۔ جب اس زخم میں زہریلا مادہ زیادہ جمع ہوجاتا ہے تو شدید درد بھی ہوتا ہے اردگرد کی شریانوں سے خون کی سپلائی متاثر ہوتی ہے اور زخم والی جگہ قدرے گرم محسوس ہوتی ہے ۔مریض کا وزن کم اور تھکاوٹ زیادہ ہونے لگتی ہے۔ جلد کے کینسر کی تشخیص کیلئے Biopsy لازمی کی جاتی ہے۔ جلد کے کینسر سے بچنے کیلئے جتنا ممکن ہو صبح دس سے دوپہرتین بجے تک سورج کی براہ راست شعاعوں سے بچنا چاہیے۔ ہمیشہ تازہ سبزیاں اور پھل استعمال کریں۔ آلودگی اور غلیظ دھوئیں والے ماحول سے گزرنے کے بعد اچھی طرح سارے جسم کو دھویا جائے۔ سورج کی تابکاری شعاعیں جلد کے کینسر کا باعث بنتی ہیں۔زیادہ تر جلد کے کینسر کی علامات پچاس سال کی عمر میں ظاہر ہوناشروع ہوتی ہیں ۔
جنرل ہسپتال کے ماہر امراض چشم اور آنکھ کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر حسین احمد خاقان نے بتایا’’پر دہ بصا ر ت کے کینسر کی شر ح بچپن میں پا ئے جا نے وا لے کینسر ز میں سے تین فیصد ہوتی ہے ۔ یہ ایک نا یا ب کینسر ہے جو ہر سترہ ہزار پیدا ہو نے وا لے بچو ں سے ایک کو ہو تا ہے ۔چالیس فیصد مو روثی پر دہ بصا ر ت کا کینسر عمو ما ً دو نوںآ نکھوںمیں اور ساٹھ فیصد غیر مو رو ثی عمو ما ً ایک آ نکھ میں ہو تا ہے۔ ایسے بچے جن کے بہن یابھا ئی پہلے سے اس مر ض میں مبتلا ہوں تو آنے والے بچے کی پیدا ئش سے پہلے ماں کا الٹرا سا ؤنڈ اور دیگر ٹیسٹوں کے ذریعے اُسکی تشخیص کر نی چا ہیے۔ بچے کی پیدا ئش کے فو را ً بعد آ نکھ کے پر دے کا معا ئنہ ضر وری ہے اورچار سے پانچ سا ل تک معا ئنہ کر وا تے رہناچا ہیے ۔پر دہ بصا ر ت کے کینسر کی علا ما ت میں آ نکھ کی پتلی میں سفید ی کا نظر آ نا ،آ نکھوںکا ٹیڑ ھا پن، آ نکھ کا بڑا ہو جا نا ، پور ی آنکھ میں پھیل جا نا ،آ نکھ میںسوجن آ جا نا اورآنکھ کا با ہر کی طر ف نکل آ نا ہے ۔کینسر کی حا لت کے مطا بق اس کا علاج لیزر، کر ایٹو، کیمو تھراپی، ریڈیو تھراپی اور آ پر یشن ( آ نکھ کا نکا ل دینا) سے کیا جاتا ہے۔
کینسر کی تین اقسا م میں نو ڈیو لر،یہ چمکتا ہو ا سفیدما ئل سخت دا ناہو تا ہے جس کی سطح پر نمائیاں خو ن کی نا لیاں دکھا ئی دیتی ہیں ۔ ایک دو سال تک اس کا سا ئز اشاریہ پانچ سینٹی میٹر تک ہو تا ہے ۔ دوسرا نو ڈیو لوالسریٹو، دیکھنے میں یہ پٹھے ہو ئے دا نے کی شکل جیسا ہو تا ہے جس کے در میان میں السر ہو تا ہے اور کنا رے اند رکی طر ف مڑے ہو ئے ہو تے ہیں اور اِن کنا رو ں پر خو ن کی چھو ٹی چھو ٹی نا لیا ں بہت نما ئیاںدکھا ئی دیتی ہیں۔ تیسرا سکیلر و زنگ،اس کینسر کی شر ح کا فی کم ہے اور اس کی تشخیص خا صی مشکل ہے یہ جلد کے نیچے پھیلتا ہے اور دکھا ئی نہیں دیتا۔ دیگر اقسام کے کینسرز میں سسِٹک، ایڈی نو ائیڈ ، پیگمنٹڈاورآ نکھ کے چھپر کا کینسر قابل ذکرہے یہ نسبتا ً کم پا ئے جا نے والامگر مہلک کینسرہے ۔ یہ کینسر نسوں کے ذریعے دما غ تک پہنچ سکتا ہے ۔ یہ کینسر پہلے سے مو جو د کچھ بیما ریو ں کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتاہے ۔ کمز و ر قوت ِمد ا فعت رکھنے وا لے افرا د اس مرض میں لا حق ہو نے کے زیا دہ امکا نا ت رکھتے ہیں ۔ ۔Conjunctiva کا کینسر عمو ما ً ایک آ نکھ میںہو تا ہے اورا سکی جڑیں پید ا نہیں ہوئی ہو تی ہیں۔ یہ سو ر ج کی تابکاری شعا عو ں ،ایچ پی وی وا ئر س ، انفیکشن اور ایڈ ز کی وجہ سے ہو سکتا ہے ‘‘۔
گائنا کالوجسٹ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خاقان نے بتایا’’ ہما رے ملک میں خوا تین کی صحت کے متعلق حقیقی متوا ز ن، جا مع اور ہم آ ہنگ لٹریچر کی شدید کمی ہے ۔ اس کے بر عکس بیرونی مما لک میں عو ر تو ں کی صحت کے متعلق بہت جا مع موا د مو جو د ہے ۔ جو مختلف مسا ئل کے متعلق ان کی رہنما ئی کر تا ہے جس کی وجہ سے پچیدگیوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ خوا تین کے تولیدی نظام کے سرطان بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہے ہیں اور خوا تین کی شر ح اموات بڑھنے کی وجہ بن رہے ہیںاس لیے سرطان کی وجوہات، علامات، تشخیص اور علاج کے مختلف طریقہ کار کے متعلق آگاہی بہت ضروری ہے ۔ خواتین کے عوارض اور سرطان کو ابتد اء ہی میں تشخیص کر کے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ خواتین میں چھا تی، رحم اور رحم کے منہ کا سرطان کی شر ح زیا دہ پائی جاتی ہے جسم کے تما م اعضا ء کے خلیا ت میں تقسیم ہو نے کی ایک حد ہو تی ہے ۔ اس کے بعد خلیا ت خو د بخو د اپنے آ پ کو ختم کر لیتے ہیں لیکن کینسر جیسی مہلک بیما ری میں خلیے مسلسل تقسیم ہو تے رہتے ہیں اور خون اور لمف کے ذریعے سا رے جسم میں پھیلتے رہتے ہیں اور نا ر مل خلیوںکواور با قی اعضاء کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اگر ان کی تشخیص ابتدا ئی مر ا حل میں ہو جا ئے تو یہ قا بل علا ج ہیں اور ان کے لیے مختلف طریقہ علا ج استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ گائنی کینسر بچہ دا نی ، انڈہ دا نی، بچہ دانی کے منہ اور بچہ دا نی کی ٹیو بو ں کا کینسر ہو سکتے ہیں وہ سر طان جو خوا تین کے تو لیدی نظام کے کسی بھی حصے سے جنم لیتے ہیں انہیں گائنی کے سرطان کہا جاتا ہے۔ اگر چہ بچہ دا نی کے منہ کا کینسر کی وجہ سے اموا ت کا تنا سب کم ہو گیاہے کیو نکہ اس کی تشخیص کے مختلف طریقہ کا ر اور ویکسین بھی آ گئی ہیں اس کا تنا سب پچاس سے چالیس کے درمیان کے مریضہ میں زیا دہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی تشخیص کے لیے بچہ دانی کے منہ سے خلیے لے کر ما ئیکر وسکوپ سے معا ئنہ کر نا جسے پیپ سمیئر کہا جا تا ہے ۔ جن میں اس کے ہو نے کا زیا دہ خطر ہ ہو انہیں ہرتین سال کے بعد یہ ٹیسٹ کر وا نا چا ہیے۔ اگر کینسر محدو د ( چھو ٹا ) ہے تو آ پریشن کر کے اس حصے کونکا لا جا سکتا ہے ور نہ شعا عیں ،ریڈیو تھراپی اور کیمو تھر ا پی دی جا تی ہے۔ اس سے بچا ؤ کے لیے ویکسین بھی مو جو دہے جوہمیں ایچ پی وی سے بچا تی ہیں ۔سب سے زیا دہ پھیلنے والا کینسر رحم کا اپنی جگہ سے ہٹ جاناہے جو اس کی اندرو نی جھلی سے بنتاہے یہ زیا دہ تر پنتالیس سے ساٹھ سال کی عمر میں ہو تا ہے۔اس کی وجوہا ت میںمو ٹا پا ،ذیا بیطس،بچہ نہ ہو نا،دیر سے ما ہوا ر ی ہو نا اورخا ندا ن میں کینسر کامرض ہو نا ہے۔انڈ ہ د انی کے کینسر کا تنا سب تیزی سے بڑ ھ رہا ہے اور زیا دہ اموات بھی اس کی وجہ سے وا قع ہو تی ہیں‘‘۔
ماہر امراض جگر ومعدہ ڈاکٹر فیصل حنیف نے بتایا’’ پاکستان میں جگر کے کینسر کے مریضوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جگر کے کینسر کی سب سے اہم وجہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کچھ شہروں میں ہر دسواں شہری ہیپاٹائٹس کا مریض ہے۔ ہیپاٹائٹس کے پھیلنے کی وجہ ایسے مریضوں سے خون کا انتقال ہے جن کو ہیپاٹائٹس ہو یا ایسی سرنج کا استعمال جو ہیپاٹائٹس کے مریض نے بھی استعمال کی ہو یا سرجری یا ڈینٹل سرجری کے آلات جو معیاری طرز پر صاف نہ کیے گئے ہوں ۔ہیپاٹائٹس وقت کے ساتھ ساتھ جگر کو کمزور کر دیتا ہے جس سے جگر کا کام متاثر ہو جاتا ہے۔ جگر کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور جگر کا متعلقہ خون کی نالیوں کا پریشر بڑھ جاتا ہے۔ مریض کے پیٹ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور جان لیوا خون کی الٹی ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو ہیپاٹائٹس کچھ سالوں تک رہتا ہے یہ آہستہ آہستہ جگر میں کینسر کا باعث بنتا ہے۔ جگر کے کینسر کا علاج ممکن ہے اور اگر تشخیص جلدی ہو جائے تو سرجری کرکے کینسر کو مکمل طور پر نکالا جاسکتا ہے۔ اگر سرجری نا ہوسکے تو شعائوں یا ادویات سے علاج کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال چھیانوے لاکھ مرد کینسر سے مر جاتے ہیں
Feb 04, 2017