اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) وزیر داخلہ چودھری نثار نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ چودھری نثار کی سربراہی میں وزارت داخلہ نے دہشت گردی کے خاتمے کےلئے بے پناہ اقدامات کئے، سانحہ کوئٹہ کمشن نے وزارت داخلہ سے متعلق آبزرویشن میں حقائق سامنے نہیں رکھے۔ جمع کرایا گیا جواب 64صفحات پر مشتمل ہے جو سنیئر قانون دان مخدوم علی خان کے ذریعے جمعہ کے روزجمع کرایاگیا ہے ،جواب میں وزیرداخلہ نے انکوائری کمیشن کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ رپورٹ میں وزیر داخلہ اور وزارت داخلہ سے متعلق دئیے گئے ریمارکس حذف کیے جائیں کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں ،کوئٹہ رپورٹ میں وزارت داخلہ پر لگائے گئے اعتراضات کا مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جواب میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ واقعہ ایک قومی سانحہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، پاک فوج اور وزارت داخلہ نے مل کر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بے پناہ کام کیا ہے ،کوئٹہ سانحے کے حوالے سے بلوچستان حکومت کی جانب سے صرف ایف آئی آر کا اندراج کیاگیا،اور بلوچستان حکومت نے لشکر جھنگوی اور مجلس احرار کو کالعدم قرار دینے کا کہا ہی نہیں ،لیکن رپورٹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وزارت داخلہ اور ادارے کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں اور وزارت داخلہ نے انٹیلی جینس اداروں سے شدت پسندتنظیموں کو کالعدم قرار دینے پر رپورٹ مانگی ،حالانکہ ایسا کرنا غیر منطقی بات نہیں بلکہ طریقہ کار ہے ،چوہدری نثار نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ وزارت داخلہ نے اگست 2016ءکے واقعے کے بعد فوری ایکشن لیا اور دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا عمل شروع کیا ،ان شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اور مکمل پابندی لگانے میں 3ماہ لگے کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کے دعوے پر کالعدم قرار نہیں دے سکتے ،سوشل میڈیاکے دباﺅ پر پابندیا ں لگائیں تو اصل مجرمان تک نہیں پہنچ سکتے ۔ وزارت داخلہ نے اگست 2016ءکے واقعے کے بعد دہشتگرد تنظیموں کے خلاف فوری ایکشن لیا اور انہیں کالعدم قرار دینے کا عمل شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق تمام سیکورٹی ادارے پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اور مکمل پابندی لگانے کے عمل کو تین ماہ لگے۔ متن کے مطابق دہشت گرد تنظیم پر پابندی ایک دم نہیں لگائی جا سکتی، طریقہ کار فالو کرنا پڑتا ہے۔ جواب میں وزرات داخلہ کی گزشتہ تین سال کی کارکردگی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ وزیر داخلہ چودھری نثار کی سربراہی میں گزشتہ تین برسوں میں دہشتگردی کو ختم کرنے کے لئے وزارت نے بے پناہ اقدامات کئے۔ گزشتہ تین برسو ں میں ملک کی سیکورٹی کی صورت حال اسکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ منسٹری نے طالبان رہنماﺅں سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ تاہم شدت پسندوں نے مذاکرات کامیاب نہ ہونے دئیے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاہور چرچ دھماکوں کے بعد جماعت الاحرار پر پابندی نہیں لگائی گئی اور مثال دی گئی کہ برطانیہ نے بھی جماعت الاحرار کو کالعدم قرار دیا ہے ،ہر ملک کے اپنے قوانین اور طریقہ کار اور اصول ہوتا ہے ،پاکستان نے اپنے طریقہ کار کے مطابق تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ،لاہو رچرچ حملے پر پنجاب حکومت نے بتایا تھا کہ ذمہ داروں کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے ،لشکر جھنگوی العالمی ،جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی ،تحریک طالبان مہمند گروپ سے منسلک ہیں اور لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان مہمند کو 2001ءمیں کالعدم قرار دیا جاچکا ہے ،جواب میں کہ اگی اہے کہ رپورٹ میں چوہدری نثار اور مولانااحمد لدھیانوی کی ملاقات کا الزام لگایا گیا جس ملاقات کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ دفاع پاکستان کونسل سے ملاقات تھی اور وزیر داخلہ کے علم میں نہیں تھا کہ مولانا سمیع الحق کے ساتھ احمد لدھیانوی بھی ہوں گے ۔اسلام آباد مین اہلسنت والجماعت کے جس جلسے کی بات کی گئی ہے وہ جلسہ دفاع پاکستان کونسل کا تھا اور اسی جماعت کو این او سی دیا گیا تھا ،کمیشن نے اسی جلسے کو اہسنت والجماعت کا جلسہ قرار دیدیا،جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جلسے کی اجازت وزارت داخلہ سے نہیں لی گئی بلکہ اسلام آباد انتظامیہ سے لی گئی تھی ایس اجازت وزارت داخلہ نہیں دیتی بلکہ متعلقہ انتظامیہ دیتی ہے ۔جواب میں کہا گیا ہے کہ ملت اسلامیہ ،سپاہ صحابہ پاکستان اور اہلسنت والجماعت کالعد م تنظیمیں ہیں ،تاہم احمد لدھیانوی نے انتخابات میں بھی حصہ لیا ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ،کسی کو دہشت گرد قرا ر دینے کے لیے مواد چاہیئے ہوتا ہے ورنہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
نثار جواب