اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں لاہور کی نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں کرپشن میں ملوث ملزم کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل کی سماعت میں عدالت نے کیس میں نیب پراسیکیوٹر کے تےاری نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دےا کہ آپ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں لیتے ہیں سرکاری وکیل ایک فریق کو نہیں 20کروڑ عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ اب حکومت نے بچہ پیدا ہونے پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے، بچے کو چومتے بعد میں ہیں پہلے میونسپل کمیٹی جا کر پیدائش کا اندراج کرنا پڑتا ہے، مردہ دفنانے پر بھی ٹیکس ہے، میونسپل کمیٹی جاتے ہیں کہ میرا عزیز مرگیا ہے میں غم میں ہوں مگر خوشی کے مارے ٹیکس دینے آیا ہوں، ملک میں ٹیکسوں کا جال وسیع کیا جا رہا ہے، ایک ہی چیز پر چار چار بار بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے، میں خود1982 سے ٹیکس دے رہا ہوں، ٹیکس کی رقم سے مکان بنانے کیلئے خریدے جانے والے سامان پر بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے اور پھر بنگلہ بنا کر بیچا تو اس پر بھی ٹیکس دیا، گدھا گاڑی والا مزدور بھی ٹیکس دیتا ہے۔ خصوصی پراسیکیوٹر علی عمران نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو بری کیا گیا مگر کیس میں حقائق درست طور پیش نہیں کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسار کےا کہ مقدمے میں پلی بارگین کی درخواست دکھائیں، ریکارڈ سے بتائیں کون سے حقائق درست نہیں، بتائیں کہاں لکھا ہے کہ ملزم نے رقم ادا نہیں کی؟۔ نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر (تیاری نہ ہونے کی وجہ سے) کاغذات کے صفحات آگے پیچھے کرتے رہے تو فاضل جج نے غصے میں میں کہا کہ جس طریقے سے نیب کو چلایا جا رہا ہے پریشانی کا باعث ہے، مقدمہ ججوں اور وکیلوں نے مل کر چلانا ہوتا ہے تاکہ فیصلہ کیا جاسکے، آج کل وکیلوں کا کام بھی ججوں کو کرنا پڑ رہا ہے، ہم کیوں سرکاری وکیلوں کا کام کریں؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا عدالتیں کب تک سرکار اور نیب کے وکیلوں کی طرف سے بھی کام کریں گی، یہ ججوں کا قصور ہے کہ وکیلوں سے نرم رویہ اختیار کرتے ہیں، یہ ہماری غلطی ہے کہ بار (وکیلوں) سے معذرت کرتے ہیں، سرکار کے وکیل عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں، وکیل تیاری کرکے نہیں آتے اور مقدمات کو ملتوی کرنے کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں، جج مان لیتے ہیں اس لیے سپریم کورٹ میں بھی ہزاروں کیس التواء کا شکار ہیں۔ تیاری نہ ہونے سے ایک شخص یا کمپنی کا نقصان ہوتا ہے اور وہ اسی کو جواب دہ ہے مگر سرکاری وکیل بائیس کروڑ لوگوں کو جواب دہ ہے کیونکہ ٹیکس سے تنخواہ لیتا ہے۔ بتائیں نیب میں کتنے پراسیکیوٹر ہیں اور پراسیکیوٹر جنرل کی تنخواہ کیا ہے؟۔ خصوصی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اسلام آباد میں تین خصوصی پراسیکیوٹر ہیں جو سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل کی تنخواہ کا علم نہیں۔ جسٹس دوست نے ہنستے ہوئے پوچھا کچھ تو بتا دیں ہماری تسلی کیلئے ہی سہی۔ عدالت میں بیٹھے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تنخواہ سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہے۔ (مراعات ملا کر یہ تقریبا چھ لاکھ روپے سے زیادہ ہے)۔ نیب پراسیکیوٹر کی غلط بیانی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ عدالت کو مس لیڈ کر رہے ہیں۔گزشتہ روز بھی نیب کا یہی رویہ تھا اور آج بھی یہی موقف ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں حقائق کے حوالے سے فیصلے میں خامی ہے۔ عدالت کو بتایا جائے کیا خامی ہے اور اس کے آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں جبکہ نیب پراسیکیوٹر عدالتی سوالوں کے جوابات اور پلی بارگین کی درخواست دینے میں ناکام رہے۔ عوام پر ٹیکس پہلے ہی زیادہ ہیںاب ان کو مزید وسیع کیا جا رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہمیں تشویش ہے قانون کی کس طرح بے حرمتی کی جا رہی ہے، پرائیویٹ اور سرکاری وکلا میں فرق ہوتا ہے، عدالت کو اس بات کا خیال بھی رکھنا ہو گا کہ کیا دو سال بعد نیب کو دستاویزات جمع کرانے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے یا نہیں۔