سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پی ٹی وی کے ایم ڈی کی عدم تقرری کے بارے میں از خود نوٹس کے دوران جو ریمارکس دئیے وہ قومی نکتہ نظر سے انتہائی اہم ہیں ۔نصف صدی سے زائد عمر رکھنے والا قومی ادارہ پی ٹی وی جو کبھی ملک میں ہم آہنگی اور وطن کی ثقافتی سرحدوں کی حفاظت کا ہر اول دستہ کہلاتا تھا اب حکومتی خوشامد اور قومی وسائل کی ضیاع کی آمجگاہ بن چکا ہے۔عوامی ٹیکس پر چلنے والے اس اہم قومی ادارے کے وسائل کو جس طرح گزشتہ دس سالوں کے دوران لوٹا اور بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اسکی جانب عدلیہ کی توجہ قابل تحسین ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے فوری طور پر ایم ڈی کی عدم تقرری اور سابق چیئرمین عطاءالحق قاسمی کو بھاری تنخواہیں دینے کے معاملے کو فوکس کیا ہے تا ہم سپریم کورٹ اس حوالے سے متعلقہ دیگرامور کا بھی تفصیلی جائزہ لے تا کہ اس ادارے کی ڈوبتی ناﺅ کو بچایا جا سکے۔
اس حوالے سے میں چند گزارشات سپریم کورٹ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔پی ٹی وی وہ ادارہ ہے جس نے مجھے ایک میڈیا پرسن کے طور پر قومی افق پر متعارف کرایا۔قومی تقاضوں پر حکمرانوں کے رویوں کو سمجھنے کا شعور دیا، میں ایسے ادارے کو لٹتے اور بدنام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے پی ٹی وی میں 36سال سے زائد عرصے تک بطور نیوز رپورٹر، ایڈیٹر،جنرل مینیجر اور ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز کے طور پر کام کیا ہے۔ اس عرصے میں 26ایم ڈیز ادارے کے ذمہ دار رہے۔ 1975سے2011تک کے ادارے میں ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءالحق،بے نظیر بھٹو، نواز شریف، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، معین قریشی، پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک رپورٹنگ کی۔ ان عسکری اور سول حکمرانوں کی ترجیحات ایک فلم کی طرح میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔
ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجو د میں آنے والے اس قومی ادارے کو سال ہا سال سے ریاست کے بجائے حکومتی حاشیہ بردار کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔اس ادارے کی صورتحال کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے 12ُٰؑاپریل 2013 کو پی ٹی وی کے ایم ڈی یوسف بیگ مرزا کی تقرری کو غیر قانونی اور اختیارات سے تجاوز قرار دے کر کالعدم قرار دیا اور انہیں دی گئی تنخواہیں اور سہولیات کو واپس لینے کے احکامات بھی جاری کئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے حج شوکت صدیقی صاحب نے تاریخی فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ ایم ڈی پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا عہدہ انتہائی اہم، حساس اور سٹرٹیجک حیثیت کا حامل ہے۔ اس ریاستی ادارے کے انتظامی رویے کے اثرات ملکی معاشرت اور ثقافت پر بڑے گہرے پڑتے ہیں ۔انہوں نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حکم میں لکھا کہ ریاست کی ملکیت کمپنیوں، کارپوریشنوں، اسٹیبلشمنٹ اور تنظیموں میں تعیناتی کرتے وقت سیاسی وابستگی،مخصوص پس منظر اور Favoritism کے بجائے Competitiveness, credible, fair،میرٹ اور شفافیت کو فوقیت دی جائے۔
ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ "برف ہمیشہ چوٹی سے پگلتی ہے"اگر اداروں کے سربراہ دیانت دار، محنتی اور اہل ہوں گے تو ان کے تابع افراد غلط کام نہ کر سکیں گے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ وطیرہ رہا ہے کہ صرف "اپنے بندوں" کوہی اداروں کی سربراہی دی جاتی ہے۔ پی آئی اے ،ریلوے ، اسٹیل مل اور پی ٹی وی کی حالت کس سے چھپی ہے؟پی ٹی وی ایک قومی ادارہ ہے جسے پاکستان میں ٹی وی کی ماں کہا جاتا ہے۔ہر سیاسی حکومت نے اس ادارے کے وسائل کو دل کھول کر لوٹا، ہر دور میں حکمرانوں کے لاڈلے اور لاڈلیاں اس ادارے سے فیض یاب ہوتی رہیں۔پروفیشنل ازم کے بجائے ذاتی پسند اور نا پسند کو معیار بنایا گیا۔ اسی طرح کی بہت سے وجوہات کی بدولت آج پی ٹی وی کا سالانہ خسارہ اربوں میں ہے۔سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب شوکت صدیقی صاحب نے یوسف بیگ مرزا اور بعد میں عبدالمالک کو بطور ایم ڈی پی ٹی وی لگانے کے حوالے سے جو دو تفصیلی فیصلے لکھے ہیں ان کا جائزہ ضرور لیں اس طرح پی ٹی وی کے معاملات اور یہاں ہونے والے طریقہ واردات سے اعلیٰ عدلیہ پوری طرح آگاہ ہو جائے گی ۔ موجودہ حکومت اور سیکرٹری اطلاعات کے دور میں ایم ڈی کی تقرری کے لیے اخباری اشتہار بھی دیا گیا لیکن اسے کیسے کیوں رد ی کی ٹوکری میں ڈالا گیا اس کا جائزہ بھی ضروری ہے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ اس اشتہار کے تحت اوپن مقابلے میں شرکت کے لیے55امیدواروں نے درخواستیں دیں جن میں کئی سابق سیکرٹری اطلاعات ، سابق ایم ڈی اور سابق ڈائریکٹرز شامل ہیں لیکن ان پر غور کیے بغیر محض ایک بیان جاری کر دیا گیا کہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی اہل نہیں ہے تا کہ یہ چارج سیکرٹری کے پاس رہے۔ اس غلط بیانی کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے تمام دستاویزات کو Seal کرنے کا حکم دے تا کہ ریکارڈ میں کوئی ردوبدل نہ کیا جا سکے۔(میں یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ راقم کسی بھی اعتبار سے ایم ڈی کی پوزیشن کے لیے امیدوار نہیں ہے اور نہ ہی میں نے اس عہدے کے لیے درخواست دی ہے)۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران اس ادارے میں (پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں )کی جانے والی میگا کرپشن ،لوٹ مار اور قومی وسائل کے ضیاع اور وائٹ کالر کرائمز کی چھان بین ضروری ہے تا کہ عوامی ٹیکس اور ٹی وی لائسنس فیس پر چلنے والے اس ادارے کو اسٹیل ملز اور پی آئی اے بننے سے بچایا جا سکے ۔سپریم کورٹ انتہائی ہمدردی اور انصاف کی بنیاد پر ایف آئی اے کو یہ حکم بھی دے کہ وہ چند ہفتے قبل پی ٹی وی کے سنیئرترین ڈائریکٹر فخر حمید کی موت کے محرکات کا جائزہ بھی لے جو وزارت اطلاعات و نشریات اور چیئرمین پی ٹی وی کے درمیان ہونے والی چپقلش کے دوران ذہنی دباﺅ کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے اور اسی لمحے ان کی اہلیہ بھی جو کہ کینسر کی مریضہ تھیں چند لمحوں بعد سات سالہ بچی کو بے آسرا چھوڑ کر دار فانی چھوڑ گئیں۔اس حوالے سے اخبارات اور ٹی وی ملازمین کی گواہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے فخر حمید مرحوم نے ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے تمام حقائق سے دوستوں کو آگاہ کر دیا تھا۔ وزارت اطلاعات اور پی ٹی وی کے اعلیٰ حکام نے اس معاملے پر اب تک کوئی کارروائی نہ کی ہے۔
سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل پاکستان کو حکم دے کہ وہ پی ٹی کے گزشتہ دس سال کے مالی امور کے خصوصی آڈٹ کے لیے ایک ٹیم تشکیل دیں جس کا فوکس ملازمین کے provident fundاور پینشن فنڈ میں کی جانے والی بد عنوانی اور قواعد کی خلاف ورزی ہو۔اس کے علاوہ پرائیوٹ ڈراموں اور پروگراموں کی خرید و فروخت، سپورٹس کوریجز اور بھاری رقوم پر نا اہل افرار کی تقرری کے امور کی تحقیقات بھی کرے۔ مارکیٹنگ کے نام پر بھی مخصوص تیکنیکی حکمت عملی اختیار کر کے ہر سال اربوں روپے کا گھپلا کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ پی ٹی وی کے بور ڈ آف ڈائیریکٹرز کی تشکیل اور اختیارات کے حوالے سے کمپنی ایکٹ اور میمورنڈم اینڈ آرٹیکل آف ایسوایشن پی ٹی وی کے مطابق Declaratory Verdict on the procedures of BoDبھی جاری کرنے کے احکامات دے تا کہ اس قومی ادارے کو ریاستی تقاضوں کے مطابق چلایا جا سکے۔