قرضوں میں جکڑی معییشت اور ما ضی کے حکمران

احمدجمال نظامی
قیام پاکستان کے وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان وسائل کی تقسیم بھی طے پائی۔ اس دوران مختلف اثاثوں کو بھارت اور پاکستان کے درمیان 80 اور 20 کی شرح کے تحت تقسیم کیا گیا۔ بھارت کے حصے میں 80فیصد وسائل ڈالے گئے جبکہ پاکستان کے حصے میں 20فیصد وسائل مقرر کئے گئے۔ ان وسائل کی تقسیم میں کئی اثاثہ جات شامل تھے جن میں کچھ ایسے اثاثے بھی تھے جن کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا ان اثاثہ جات کی تقسیم کے اعتبار سے بھارت نے پاکستان کو 75کروڑ روپے فراہم کرنے تھے جبکہ بھارت کے حصے میں 475کروڑ روپے آئے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد وطن عزیز میں انتظامی معاملات کو چلانے کے لئے ایک بڑی مشکل اس صورت میں سامنے آئی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کیسے ادا کی جائےں۔ اس سلسلہ میں بھارت کی طرف سے پاکستان کو 20کروڑ روپے کے طور پر پہلی قسط کا اجراءکر دیا گیا جبکہ باقی 55کروڑ روپے بھارت نے پاکستان کے دبا لئے۔ بہت سارے تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کے پنڈت جواہر لعل نہرو نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کے حصے کے بقیہ 55کروڑ روپے روکے جائیں لیکن اس پر متضاد آراءپائی جاتی ہیں ۔ تحریک پاکستان کے بہت سارے کارکنان کی یادداشتوں کے مطابق پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1948ءمیں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر ہونے والی پہلی جنگ کے غصہ میں پاکستان کے 55کروڑ روپے روکے گئے تو اس وقت قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے اور انہوں نے وزیر خزانہ کے طور پر ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیرخزانہ نامزد کیا تھا۔ ملک غلام محمد معاشی و اقتصادی امور کے انتہائی ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ یہ وہی ملک غلام محمد ہیں جو بعدازاں ملک کے گورنر جنرل بھی بنے اور ان پر وطن عزیز کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کروانے کا الزام بھی دیا جاتا رہا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کے 55کروڑ روپے روک لئے تو قائداعظم نے وزیرخزانہ کو حکم دیا کہ آپ سیٹھوں اور وڈیروں کا فوری طور پر اجلاس طلب کریں ۔بادل نخواستہ غلام محمد نے قائداعظم کے حکم پر ملک کے سیٹھوں اور بڑے وڈیروں کا اجلاس منعقد کیا اور اگلے روز جب حکومت نے اپنا اکا¶نٹ چیک کیا تو اس میں 10کروڑ روپوں سے بھی زیادہ کی رقم جمع ہو چکی تھی جس پر بھارت نے بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بعدازاں پاکستان کے روکے ہوئے پیسے جاری کر دیئے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف حکومتی ادوار آئے اور پھر آہستہ آہستہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں پھنس گیا اور ہماری حکمرانوں نے اپنے اخراجات میں عدم توازن جاری رکھا۔ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت آج بھی برقرار ہے۔ ہر نئے سال اور نئی حکومت کے ساتھ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں ناروااضافہ جاری ہے۔پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے شکنجے میں آج بھی کڑی شرائط پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ہر محب وطن کی اولین ترجیح یہی ہے ،مختلف منافع بخش اداروں کو پرائیویٹائز نہ کرنا پڑے۔ پاکستان میں بار بار ان مالیاتی اداروں کے پریشر میں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنا پڑے اس کیلئے وزیراعظم کی حیثیت سے نوازشریف نے اس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ذریعے 15فیصد فلیٹ سیلزٹیکس کا نفاذ بھی کر دیا جس پر کاروباری طبقہ میں شدید احتجاج پایا گیا ۔لیکن ملکی معیشت کو پھر بھی قرض سے نجات نہ مل سکی۔12اکتوبر 1999ءکے فوجی کو کے بعد آمر پرویزمشرف یہی بتاتے رہے ملک کی معیشت دیوالیہ کا شکار ہے مگر انہوں نے بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ سارے معاملات طے کر کے اتنے قرضے لئے کہ کچھ مختلف نہ تھا۔ اس دوران معیشت کی بہتری کے نعرے تو بہت لگائے گئے لیکن جب وہ اقتدار کے ایوان سے باہر نکلے تو ملکی معیشت کو مہنگائی، غربت، افلاس اور سب سے بڑھ کر توانائی بحران کاسامنا تھا۔ پرویزمشرف دور میں ہی 2005ءمیں ڈبلیو ٹی او کا عالمی معاہدہ طے پا یا توکوٹہ سسٹم کے خاتمے سے شعبہ ٹیکسٹائل کی زبوں حالی میں رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔
2008ءکے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی لیکن معیشت کی بہتری کے لئے کچھ نہ کیا جا سکا البتہ صنعتی شعبہ کو کسی حد تک ایک طے شدہ اوقات کار کے تحت توانائی ذرائع فراہم کئے گئے لیکن مجموعی طور پر اس دور میں صنعتی مزدور، مالکان، تاجر اور کاشتکار سراپا احتجاج بنے رہے۔ 2013ءکے انتخابات کے نتیجے بننے والی موجودہ حکومت جنہوں نے ماضی میں قرض اتارو ملک سنوارو مہم کا آغاز کیا تھا اس کے دور حکومت میںبین الاقوامی قرضہ جات کی تمام حدیں عبور ہو گئیں۔ ملکی تاریخ میں جتنا قرضہ 2013ءتک لیا گیا تھا اس سے زیادہ قرضہ مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت نے ساڑھے چار سالوں میں لے لیا لہٰذا وقت رواں میں معاشی و اقتصادی مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ موجودہ حکومت کی قرض حاصل کرنے کی روش اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے گزشتہ چھ ماہ میں 4.10ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ حاصل کیا۔ حکومت نے رواں مالی سال کے آخر تک 4.22ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے ادا کرنے ہیں۔ اقتصادی امور ڈویژن کے مطابق وزارت خزانہ نے دسمبر میں 97کروڑ ڈالر کا نیا قرضہ لیا۔ اس دوران ایشیا ترقیاتی بینک سے 47کروڑ ڈالر اور چین سے 36کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا گیا جبکہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے قلیل المدت بنیادوں پر 2کروڑ 12لاکھ ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے قرضوں کی نہ صرف حد کی بلکہ ان قرضوں کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار کر دی لیکن دوسری طرف معیشت سے متعلقہ شعبہ جات مسلسل بحران کی زد میں ہیں ۔وطن عزیز میں خط غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح میں مسلسل اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ لہٰذا ایسے نامساعد حالات میں جبکہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی پیداواری شعبہ جات کی استعداد سے باہر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خود انحصاری کی پالیسی کی طرف قدم اٹھائے ۔اس کی مثال ملائیشیا ماڈل کی معاشی و اقتصادی ترقی ہے جو ہمارے جیسے تری پذیر ممالک کیلئے حوصلہ افزائی کا مو¿ثر ترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت جب بالخصوص گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے معاہدے اور منصوبہ جات پر کامیابی سے کام جاری ہے تو معاشی و اقتصادی ترقی کو دوچند کرنے کے لئے خودانحصاری پر مبنی پالیسیز تشکیل دیتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے میں ذرا برابر دیر نہیں کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن