الیکشن کے دنوں میں ووٹ بینک کیلئے تحریک انصاف نے جنوبی پنجا ب کا نعرہ بلند کیا تو اس میں کسی کو حیرانی نہ ہوئی کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ پچھلے کئی سالوں سے الیکشن کے دنوں میں جنوبی پنجاب کی تقسیم کی باتیں کرنا سیاست دانوں کا مقبول کھیل بن چکا ہے ۔پنجاب میں حکمران جیسے بھی رہے ہوں ۔پنجاب کے حالات باقی صوبوں سے بہت اچھے رہے ہیں ۔جنوبی پنجا ب میں بسنے والے پنجابیوں کے دلوں میں احساسِ محرومی پیدا کرنیوالا اصل نقطہ یہ ہے کہ شمالی پنجاب کے حالات جنوبی پنجا ب سے بہت زیادہ بہتر ہیں ۔اسی بات کا بتنگڑ بنا کے سیاستدان پنجا ب کو ٹکڑوں میں توڑنے کی بات کرنے لگتے ہیں۔ ۔اگر حالات کا جائزہ لیں تو سندھ میں پچھلے قریب چالیس سالوںسے پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے لیکن سندھ کے تخت پر بیٹھنے والوں نے عوام کی حالت بدلنے کی بجائے اپنے بینک بیلنس کا ہی خیال رکھنا بہتر سمجھا ہے ۔عوام کی اکثریت کو تعلیم اور شعور کی پہنچ سے دور رکھنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ۔اور کچھ ایسا ہی حال جنوبی پنجا ب سے منتخب ہونے والے مخدوموں,گیلانیوں اور وڈیروں کو رہا ہے ۔ان لوگوں نے بھی صرف اپنی ذات کو مضبوط بنانے کیلئے سیاست کی ہے ۔خود باشاہوں جیسی زندگی گزرانے والے الیکشن کے دنوں میں عوام کے دلوں میںتختِ لاہور کیخلاف زہر بھرنے لگتے ہیں ۔آج تحریک انصاف نے جنوبی پنجا ب کے عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے وہیں سے ایک بندے کو تخت ِ لاہور پر بٹھا دیا ہے ۔اب تحریک انصاف کی جانب سے تو جنوبی صوبے بارے کوئی خاص پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی لیکن نون لیگ اپنے مفاد کیلئے جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کا بل لے کے اسمبلی میں پہنچ چکی ہے ۔نون لیگ والے جانتے ہیں کہ جنوبی صوبہ بننے سے وہ بھی پیپلز پارٹی کی شمالی پنجاب کے تخت پر کئی سال تک حکمرانی کر سکتے ہیں ۔لیکن میرا خیال ہے کہ کپتان نون لیگ کا یہ پلان اب کامیاب نہیں ہونے دیگا ۔ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اسکے ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو میاں شہباز شریف کی حکمرانی کا دور بہت طویل ہے ۔ اسکے بعد چوہدری پرویز الہٰی نے بھی اپنے دورِ حکومت میں پنجاب میں انقلابی اصلاحات شروع کروارکھی ہیں۔لیکن یہ دونوں مذکورہ ہستیاں اپنی ایک مخصوص پہچان رکھتی تھیں۔پرویز الہی دھیمے مزاج کے پکے سیاست دان ہیں جنہوں نے بنیادی سہولتوں کی طرف ساری توجہ رکھی جبکہ شہباز شریف پر جوش انتظامی سربراہ جو بڑے بڑے منصوبے بنانے کی کوشش میں رہے۔ تحریک انصاف کو جب اقتدار نصیب ہوا تو انہیں یہ سمجھ آچکی تھی کہ اگر مرکز میں سکون سے کام کرنا ہے تو پنجاب میں وزیر اعلی ایسا ہونا چاہیے جس کی سوچ تحریک انصاف کے ایجنڈے سے میچ کھاتی ہو ۔ یوں تو پنجاب اسمبلی میں نمبر پورے ہونے کے دنو ںتحریک انصاف کے بہت سے تگڑے اور مشہور سیاست دان بھی وزیر اعلی پنجا ب بننے کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن فیصلہ جناب عثمان بزدار کے حق میں ہوا۔ ایک خراب وکٹ پہ وہ نپی تلی باری لینے کا پلان بنا چکے ہیں۔انکی اس کامیاب حکمت عملی سے انکے مخالفیں سمیت انکے اپنی پارٹی کے لوگ بھی پریشان ہیں ۔ابھی حکومت کو آئے وقت ہی کتنا ہوا کہ کپتان کے کیمپ سے کچھ لوگ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہٹا کے پنجا ب کی سیاست میں ہل چل مچانا چاہتے ہیں ۔ عثمان بزدار میں نہ تو شہباز جیسا جاہ وجلال ہے اور نہ وہ کوئی بڑا کاروباری گروپ چلا رہا ہے اس لیے کچھ لوگ جن کی اپنی دیہاڑیاں خراب ہورہی ہیں وہ عثمان بزدار کو گھر بھیجنے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔عثمان بزدار کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انکی تعلیم ایم اے ایل ایل بی ہے۔ سردار صاحب 2001 سے سیاست میں ہیں یعنی ان کیلئے سیاست بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے ایک طاقتور قبیلے کا سردار ہونے کے باوجود ایک سادہ اور شریف النفس آدمی ہیں۔ وہ اپنی شا ن و شوکت کو بڑھاوا دینے کیلئے لاہو ر اور اپنے آبائی گھر کو کیمپ آفس کا درجہ بھی نہیں دے رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے کپتان کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔اب تک کی کارکردگی کو دیکھیں تو پنجا ب میں ساہیوال کے واقعے کو چھوڑ کے حالات کنٹرول میں رہے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ سردار صاحب حالات کو مزید بہتر سمجھنے لگیں گے اس وقت وزیر اعظم کو اپنے نائب کا ساتھ دیکرشکوک و شبہات کو ختم کروانا ہوگا ۔اور ان سازشیوں کے منہ بند کروانے کی کوشش کریں جو پنجاب میں تحریک انصاف کی مضبوط حکومت کو وزیر اعلی بدلنے کی آڑ میں ختم کروانے کی کوششوں میں ہیں ۔اور ساتھ ہی خان صاحب نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے جھا نسے میں آکے کے پنجاب کو مزید تقسیم کرنے کی بجائے جنوبی علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کی کوشش کریں ۔باقی تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ جنوبی پنجاب کے نمائندوں کی کارکردگی کا گراف بنا کے اس پر مسلسل نظر رکھیں ۔جنوبی پنجا ب کے لوگوں کے اندرسے احساسِ محرومی ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکمران دھیان رکھیں کہ ترقیاتی فنڈ عوام کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہونا شروع ہوں۔ اسکے ساتھ عوام کو شعور دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندوں سے بازپرس کرنے کے قابل ہو جائیں ۔پنجا ب کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں ۔ہاں سوچ بدلنے سے ترقی یقینی ہوگی ۔سردار صاحب اللہ آپکو جنوبی پنجا ب کے لوگوں کی حالات بدلنے کی توفیق دے ۔اور سارا پنجا ب سر سبز و شاداب بن جائے ۔عوام کی حالت ہر کہیں بہترین ہو۔اور سب کہیں
میرا وسدا رہوے پنجاب