پبلک اکائونٹس کمیٹی ،شہباز شریف اورشیخ رشید

Feb 04, 2019

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’محاذ آرائی ‘‘ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی قائم ہو سکی اور نہ ہی قومی اسمبلی کی کوئی مجلس قائمہ تشکیل پا سکی اس طرح پارلیمنٹ کا 4ماہ سے زائد عرصہ ضائع ہو گیا اس عرصے میں کوئی قانون سازی نہ ہو سکی۔بہرحال سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرنے وزیر اعظم عمران خان سے میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کا مطالبہ تسلیم کروا کر پارلیمان کو بحران سے بچا لیا اس طرح عمران خان نے اپنے طرز عمل پر خوبصورت ’’یوٹرن‘‘ لے کر میثاق جمہوریت کی توثیق کر دی جس کے بعد نہ صرف پبلک اکائونٹس کمیٹی قائم ہو گئی بلکہ مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کی تشکیل پا گئی اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کی بقیہ 38مجالس کی چیئرمین شپ کی تقسیم کا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے لیکن بعض وزراء کو وزیر اعظم کا فیصلہ ایک آنکھ نہیں بھایا انہوں نے کھل کر اس فیصلے کی مخالفت شروع کر دی یہ طے شدہ حکومتی پالیسی تھی یا ’’کپتان‘‘ کے فیصلے سے بغاوت اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ۔ شروع میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چو ہدری نے کھل کر میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کی مخالفت شروع کی پھر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی میاں شہباز شریف کے خلاف بیان بازی شروع کر دی اسی طرح دیگر وزراء بھی میاں شہباز شریف کو چیئرمین بنانے کی مخالفت میں اپنا حصہ رہے ہیں شنید ہے ۔
مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتے تو ’’مخبر ‘‘ کی اطلاع پر اسلام آباد ہوائی اڈے پر حاضری کے لئے ’’بقراطِ عصر‘‘ دوڑ پڑتے تھے ۔ اس وقت وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو’’ خوش‘‘ کرنے کے لئے آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو سمیت نواز شریف کے تمام دشمنوں کو جن ’’القابات‘‘ سے نوازتے الاماں الحفیظ‘‘ ان جملوں کو ضبط تحریر نہیں لایا جا سکتا تھا ۔ یہ بات بھول جاتے ہیں جب آپ ’’ شیشے کے گھر‘‘ میں بیٹھ کر کسی جماعت کے لیڈرپر ’’گولہ باری‘‘ کریںگے تو اس کے جواب میں اس کی جماعت کے لیڈر پر پھول نہیں برسائے جائیں گے بلکہ خود ان کے خلاف دشنام طرازی کی جائے گی۔
میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو زمانہ طالبعلمی سے جانتا ہوں ؎ دوچار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے کم و بیش 50سال پر محیط دوستی ہے اس میں کچھ عرصہ ایسا بھی جب ہم دونوں میں ’’ناراضی ‘‘ رہی اب تو یہ’’ ناراضی‘‘ اتنی طوالت پکڑ گئی ہے کہ انہوں نے 50سالہ تعلق کو’’بوجھ ‘‘ سمجھ کر توڑ دیا ہے حتی ٰ کہ دوستوں کے ساتھ مرنا جینا بھی چھوڑ دیا ہے ہم نے مرنا جینا تو نہیں چھوڑا لیکن ’’آمریت اور فسطائیت‘‘ کی مدح سراہی کرنے والوں کی تعریف و توصیف چھوڑ دی ہے۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا ان کو بے نظیر بھٹو کا مذاق اڑانے کے ’’جرم‘‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جیل بھجوا دیا میں نے پچھلے دنوں بے نظیر بھٹو دور حکومت کے ایک سینئر پولیس افسر سے شیخ رشید احمد سے ’’کلاشنکوف‘‘ برآمد ہونے کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کلاشنکوف شیخ رشید کی ملکیت تھی بلکہ’’ معنی خیز ‘‘ انداز میں کہا کہ ’’میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہم نے لال حویلی سے کلا شنکوف برآمد کی تھی ۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ’’ کس کے حکم پر لال حویلی میں کلاشنکوف رکھ کر شیخ رشید احمد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا ‘‘ اس دور میں بہاولپور جیل کی وہ تاریخی تصویر بھی میرے پاس موجود ہے جس میں میاں نواز شریف شیخ رشید کو بوسہ دے رہے ہیں ۔ میں نے اس وقت کے گورنر چوہدری الطاف حسین سے گورنر ہائوس لاہور میں ملاقات کی اور ان سے شیخ رشید احمد کی رہائی پر بات کی تو انہوں نے کھل کر بتایا کہ شیخ رشید احمد کو کیوں سزا دی گئی شیخ رشید احمد کی ’’ رہائی ‘‘ میں جن ’’دوستوں‘‘ نے کردار ادا کیا ہے یہ بھی ایک طویل داستان ہے پھر کسی اور وقت کے لئے ’’ادھار ‘‘۔ وقت کا جبر ہے کل تک جو لیڈر شیخ رشیداحمدکے ہیرو تھے وہ آج ان کے دشمن نمبر ون ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی بیان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ یہی وجہ ہے آج شیخ رشید ہر روز پریس کانفرنس میں میاں شہباز شریف کو’’ للکار‘‘ رہے ہوتے ہیں اور انہیں دھمکی دیتے ہیں ’’خبردار ! شہباز شریف میں پبلک اکائونٹس کمیٹی میں آرہا ہوں ‘‘ پہلے تو انہوں نے میاں شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا تھا پھر وہ وزیر اعظم عمران خان سے ریاض فتیانہ کی بجائے انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنانے کا خط لے کر سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں پہنچ گئے اگرچہ کسی وزیر کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنانے کی ممانعت نہیں لیکن ایسی کوئی پارلیمانی روایت بھی نہیں کہ ماضی میں کسی وزیر کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہو ۔ یہ برطانوی پارلیمانی نظام کی کمیٹی ہے جس میں کسی کا احتساب نہیں ہوتا بلکہ آڈیٹر جنرل کی طرف سے لگائے گئے ’’آڈٹ پیراز ‘‘ پر متعلقہ محکموں سے جواب طلبی اور ریکوری کی جاتی ہے ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی ’’احتساب ‘‘ عدالت نہیں ہوتی بلکہ مختلف محکموں کی جانب سے خرچ کی ہوئی رقوم پر لگائے گئے آڈیٹر جنرل کے اعتراضات کی سماعت کا ادارہ ہوتا ہے جس میں بیشتر آڈٹ پیرازکلیئر ہو جاتے ہیں کچھ کی ریکوریاں کرا لی جاتی ہیں ۔ یہ ’’مار کٹائی ‘‘ اور ’’دنگل ‘‘ کا میدان تو ہے نہیں جہاں شیخ رشید احمد میاں شہباز شریف کو پچھاڑنے جا رہے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے چوہدری نثار علی خان نے جو شاندار روایات قائم کی ہیں ان کو پارلیمنٹ میں سالہاسال تک یاد رکھا جائے گا انہوں نے بعد میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے آنے والے چیئرمینوں کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے شیخ رشید احمد پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بننے کے لئے بے تاب ہیں تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی سردار ایاز صادق کی جگہ خواجہ سعد رفیق کو رکن بنوانے کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کے پاس پہنچ گئے ۔ خواجہ سعد رفیق ایک سینئر پارلیمنٹیرین ہیں پارلیمنٹ میں گفتگو کرنے کا سلیقہ آتا ہے ان کو فی البدیہ تقریر کرنے کا ملکہ ہے ان سے حکمران خوفزدہ رہتے ہیں اس وقت وہ نیب کی تحویل میںاس طرح چیئرمین پبلک اکائونٹس کی حیثیت سے میاں شہباز شریف ان کو کمیٹی کے اجلاس میں لانے کے لئے خود پروڈکشن آرڈر جاری کر سکتے ہیں۔ شنید ہے سپیکر نے خواجہ سعد رفیق کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور نہ ہی شیخ رشید احمد کو رکن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ شہبا زشر یف کو چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانا وزیر اعظم عمران خان کا بلنڈر ہے ‘آرمی چیف سے اپیل ہے کہ شہباز شریف کی سکیورٹی پرتعینات رینجرز کی گاڑیاں ہٹائی جائیں۔ تجربے کے لحاظ سے ان کا میرے ساتھ کوئی موازنہ نہیں،مجھے رولز اینڈ پروسیجر زبانی یاد ہیں ،آپ تو پہلی مرتبہ منسٹر انکلیو میں آئے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے ریاض فتیانہ کی جگہ میرا نام دیدیا ہے ۔ اگر اللہ راستہ نہ روکے تو میرے ممبر بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن معلوم نہیں سپیکر کیوں تاخیر کر رہے ہیں ،میں اس وقت فل فارم میں ہوں ‘‘ اسی طرح رانا ثناللہ نے جو شیخ رشید احمد کی ’’عزت افزائی کی ہے اس کی ’’گونج ‘‘ راولپنڈی تک سنائی دے رہی ہے میرا شیخ رشید احمد کو یہی مشورہ ہے وہ میاں شہباز شریف سے الجھنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے پر مرکوز کریں خواجہ سعد رفیق ان کے لئے خاصا کام کرکے چھوڑ گئے ہیں شیخ رشید احمد اور میاں شہباز شریف کا سیاسی کیریئر 80کے عشرے میں شروع ہوا ان کی یہ بات غلط ہے کہ میاں شہباز شریف پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں انہوں نے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے پر کئی بار اپنی نشست چھوڑی ہے اورایک دو بار قوی اسمبلی کے رکن کاحلف بھی اٹھایا ہے ۔

مزیدخبریں