جیسے خزاں میں کوئی خوشنما پھول نظر آجائے۔ بالکل اسی طرح موٹروے اور ہائی ویز پولیس کے ادارے کے بارے میں جان کر آپ یہ فرحت محسوس کریں گے کہ چاروں طرف وطن عزیز کے ادارے ایک ایک کر کے تباہی کے دہانے پر ہیں مگر ایک ادارہ ایسا بھی ہے جسے ہم دنیا کے اداروں کے ہم پلہ قرار دے سکتے ہیں۔
پاکستان موٹروے پولیس نے نہ صرف پولیس کے کلچر کو ایک نیا رنگ دیا ہے بلکہ عوام کے رویے اور تربیت سازی میںبھی اہم کردار ادا کیا ہے۔آپ دیکھیں کہ وہی عوام جو عام سڑکوں پر قانون کو خاطر میں نہیں لاتے ‘موٹروے پر چڑھتے ہی محتاط اور ذمہ دار شہری بن جاتے ہیں۔ عوام کی یہ تربیت سازی بلاشبہ موٹروے پولیس کی کامیابی کی درخشاں مثال ہے جس کے ڈنکے اب بیرون ممالک میں بھی بج رہے ہیں۔اس ادارے نے روڈسیفٹی کے تصور اور مہذب ڈرائیونگ کلچر کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور دوستانہ پولیس کے کلچر کو بھی عام کیاہے۔قومی شاہرات اور موٹرویز پر سفر کرنے والے عوام کی بر وقت مدد کر کے اور خوش اخلاقی سے پیش آنے میں ابتداء کرتے ہوئے موٹروے پولیس نے پولیس کلچر میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور یہ اضافہ موٹروے پولیس کی سربراہی کرنے والے تجربہ کار ، محنتی، فرض شناس ،ایماندار اور پیشہ ور سربراہان کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ ان آئی جی صاحبان میں افتخار رشید، میجر ضاء الحسن، احمد نسیم، رفعت پاشائ، واجد درانی، ظفر عباس لک، ذوالفقار احمد چیمہ اور موجودہ آئی جی اے ڈی خواجہ جیسی قد آور شخصیات شامل ہیں۔
دستیاب اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز کی لمبائی اس وقت قریب چار ہزار تک پہنچ گئی ہے اور قریب بارہ ہزارلمبائی کے قریب مزید شاہرات کو بہت جلد مکمل کر کے عوام کے لئے کھولنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان شاہرات میں ڈی آئی خان سے اسلام آبادموٹروے، مانسہرہ سے تھاکوٹ موٹروے، لاہور سیالکوٹ موٹروے اور سوات موٹروے شامل ہیں۔ یہ موٹرویز پنجاب کے لہلہاتے ہوئے اور زرخیز میدانوں‘ سندھ کے لق و دق صحرائوں، ہزارہ اور مری کے سرسبز پہاڑوں اور بلوچستان کے بنجر ٹیلوں کے درمیان گزرتے ہوئے وفاق کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ یہ نئی اور جدید شاہرات سفری سہولیات، تجارتی مواقع، معاشرتی باہمی میل جول میں اضافے اور دیگر کئی فوائدفراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے چیلنج بھی لے کر آئیں گی۔ اور وہ چیلنج ہیں کہ ان شاہرات پر برق رفتار گاڑیوںنظم و ضبط میں رکھنا ، کسی مشکل کی صورت میں روڈ یوزر کو بروقت اور موثر مدد فراہم کرنا، عوام میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے انٹرنیشنل بیسٹ پریکٹسیس کو فروغ دینا ، عوام کے جان و مال کی حفاظت ، حادثات کی روک تھام وغیرہ۔ ایسے مزید بہت سارے چیلنجز کو احسن طریقہ سے نبھانے کے لئے جس فورس کا انتخاب کیا گیا ہے وہ اپنی پروفیشنل قابلیت کا لوہا پوری دنیا میں منوا چکی ہے۔ تاہم مقامِ عزت حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس کو برقرار رکھنا ہے۔ اس لئے روڈ سیفٹی پر ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔
روڈ سیفٹی کتنا اہم موضوع ہے اس کا اندازہ ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو کہ دسمبر 2018 میں گلوبل اسٹیٹس آن روڈ سیفٹی 2018 کے نام سے شائع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں روڈحادثات میں سالانہ اموات 1.35 ملین تک پہنچ گئی ہیں اور پانچ سے انتیس سال کے لوگوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ اور کسی بھی عمر کے اشخاص کی اموات کی آٹھویں بڑی وجہ روڈ حادثات ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق موٹرسائیکل سوار، سائیکل سوار اور پیدل چلنے والے اشخاص ان حادثات کا بڑا حصہ ہیں۔
حادثات کی روک تھام کے لئے موٹروے پولیس عوام کے شعور اور تربیت کے لئے کمربستہ ہے۔ موٹروے پولیس کی تربیت کن خطوط پر ہو رہی ہے اور وہ عملی میدان میں وہ کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں اور مزید کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں ان سب کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔کوئی بھی ادارہ اس وقت تک درست سمت میں کام نہیں کر سکتا جب تک اس میں موجود افراد کی درست انداز میں بھرتی اور پیشہ ورانہ تربیت نہ کی جائے۔ موٹروے پولیس میں بھرتی کا نظام انتہائی شفاف ہے اور اس میں پڑھے لکھے نوجوان اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔اب ان پڑھے لکھے افسران کی پیشہ ورانہ تربیت ہی ہے جس کی وجہ سے موٹروے پولیس آج اس اہم مقام پر ہے۔ کچھ دن پہلے موٹروے پولیس ٹریننگ کالج جو شیخوپورہ میں قیام پذیر ہے کے کمانڈنٹ ڈی آئی جی محبوب اسلم سے بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ موٹروے پولیس کے افسران کی تربیت کے دوران موٹروے پولیس محکمہ کی بنیادی اقدار جس میں ایمانداری ، خوش اخلاقی، اورمدد شامل ہے کو فروغ دینے کے لئے بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔افسران کی ٹریننگ میں اخلاقی پہلو سے لے کر پیشہ ورانہ مہارتوں پر عبور حاصل کرنے کے لئے جدید خطوط پر تربیت کی جاتی ہے۔ کمانڈنٹ ڈی آئی جی محبوب اسلم نے موٹر وے پولیس میں نئی جان ڈال دی ہے۔انہوںنے بتایا کہ افسران کی شخصیت میں نکھار لانے کے لئے کمیونیکیشن سکلز اورپرسنیلٹی ڈویلپمنٹ جیسے مضامین بھی ان کے نصاب میں شامل کئے گئے ہیں جبکہ مہارتوں میں ویپن ہینڈلنگ، سپیڈ چیکنگ کیمرہ، ڈرایئونگ سکلز، وائرلیس کمیو نی کیشن وغیرہ شامل ہیں۔ افسران کی جسمانی تربیت کے لئے روزانہ ورزش اور ان میں نظم وضبط پیدا کرنے کے لئے پریڈ کروائی جاتی ہے۔ مزید ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما ء کے لئے جم، سوئمنگ پول، لائبریری، ان ڈور اور آئوٹ ڈور کھیلوں کی سہولتیں موجود ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ چار فروری کو چار سو سے زائد جونئیر پیڑول آفیسر پاس آوٹ ہو رہے ہیں جو عملی میدان میں عوامی خدمت کے لئے بالکل تیار ہیں اور جن کی تربیت انتہائی جدید خطوط پر کی گئی ہے۔کمانڈنٹ ٹریننگ کالج ڈی آئی جی محبوب اسلم کے مطابق موٹروے پولیس عوام میں روڈ سیفٹی کے شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ موٹروے پولیس روڈ سیفٹی ٹریننگ انسٹیٹیوٹس میں ڈرائیونگ کورسز، موبائل ایجوکیشن یونٹس کے ذریعے مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں لیکچرز، بریفنگ آفیسرز کے زریعے روڈ یوزرز میں آگاہی، روڈ سیفٹی سیمینارز اور الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین کی آگاہی پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے۔مزید حادثات کی روک تھام کے لئے موٹروے پولیس بلا امتیاز ہر غریب اور امیر پر یکسانیت کی بنیاد پر قوانین کا نفاذ کرتی ہے جو اس محکمہ کا طرہ امتیاز ہے۔لوگوں کی گمشدہ قیمتی اشیاء واپس کر کے موٹروے پولیس نے ایمانداری کی قابلِ تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔
موٹروے پولیس تو اپنا کام مستعدی ‘ جانفشانی اور نیک نیتی سے کرہی رہی ہے‘ضروری ہے کہ عوام بھی ٹریفک قوانین کی پابندی کو اپنا شعار بنائیں اور روڈ سیفٹی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہوں۔ اسی طرح یہ قوم سڑکوں پرہونے والے جسمانی ‘ذہنی اذیت اور مالی نقصان سے بچ سکتی ہے اور اقوام عالم کے سامنے خود کو مہذب قوم کے طور پر منوا سکتی ہے۔
موٹروے پر سفر کے ذاتی تجربات لکھنے بیٹھوں تو ایک الف لیلیٰ سامنے آئے گی۔کبھی پھر سہی!