ستر کے عشرے کے آخری برسوں کی بات ہے۔ پی آئی اے کی طرابلس لیبیا کے لئے براہ راست پروازیں نہیں چلا کرتی تھیں۔ تب‘ روٹ یہ تھا۔ پی آئی اے کا طیارہ کراچی سے اڑ کر بیروت (لبنان) رکتا تھا۔ گھنٹہ ڈیڑھ ٹھہر کریونان کیلئے پرواز کر جاتا تھا۔ جہاں گھڑی بھر دم لے کر بخیرہ روم کے نیلے پانیوں پر اڑتا ہوا لیبیا کے مشرقی خطے جبل الاخضر سے ساحل کی پٹی پکڑ کر طرابلس جا پیٹھ ٹکاتا‘ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کراچی سے طرابلس پہنچنے میں گیارہ گھنٹے لگتے تھے۔ ان برسوں میں پی آئی اے اور لیبیا کے آمر مطلق محمد معمر دونوں کے ستارے عروج پر تھے۔ محمد کا تعلق سرت کے قذافی قبیلے سے تھا اور اسی حوالے سے محمد کم اور معمر قذافی کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا۔ کتاب الاخضر کی ’’آیات‘‘ پر مشتمل بورڈ ملک بھر میں جا بجا سا شوارع عام پر نصب تھے۔ کتاب الاخضر کی اشاعت پر غیر معمولی زور دیا جا رہا تھا‘ کوشش تھی کہ بائبل کی طرح دنیا کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو‘ کتاب الاخضر باب لااول کا اردو ترجمہ بھی دلی سے شائع ہو چکا تھا۔
درویش‘ قرآن مجید ناظرہ کے سوا عربی سے بالکل نابلد تھا۔ اکثر کیا بلکہ تقریباً سبھی ساتھی مسافر عربی سے ناواقف تھے۔ تاہم پاکستان میں چلنے والی تحریک‘ نظام مصطفیٰؐ سے متاثر اذہان نہال جا بجا کتاب الاخضر کے مقولات والے بڑے بڑے بورڈ دیکھ کر اپنے تئیں انہیں آیات قرآنی سمجھ کر غیر معمولی عقیدت کا اظہار کرتے جا رہے تھے۔ دراصل اس میں ان کا قصور بھی نہیں تھا۔ درویش جا بجا دکانوں پر لفظ حدیثہ دیکھ کر اپنے آپ کو تیرہ صدیاں پہلے کے عالم میں پارہا تھا اور خوش ہو رہا تھا کہ اس ملک میں قرآن و حدیث کا بڑا چرچا ہے‘ یہ تو بعد میں عربی سے شناسائی ہوئی۔ تو کھلا کہ حدیث اورحدیثہ کے ایک معنی ماڈرن بھی ہیں۔
جبکہ طیارہ بحیرہ روم پار کر کے لیبیا کی فضائوں داخل ہوا‘ تو ‘ اتنا خوبصورت منظر دیکھا‘ کہ تفصیل‘ بیان سے باہر ہے۔ ایک طرف‘ بحیرہ روم کا خوبصورت نیلا پانی‘ ہائے! وہ نیلا پانی‘ جس پہ کبھی طارق بن زیاد‘ خلافت عثمانیہ اور خلافت عثمانیہ کے نامور امیرا لجر خیر الدین یار بروسہ کے جنگی بیڑے‘ دندناتے پھرتے تھے۔ زمین پر اترے تو لیبیا کی دولت کے چرچے سنے اور قذافی کی ملغوبہ قسم کی آمریت سے پالا پڑا‘ قذافی کس قسم کے آمر تھے اور انکی حکومت کے رنگ ڈھنگ کس قسم کے تھے‘ اس کا اندازہ اس سے ہو جائیگا کہ ملک کا نام ہی بڑا انوکھا تھا۔ اور غالباً دنیا میں سب سے طویل بھی مثلا والجماہیریۃ العربیۃ اللیبیۃ الشعبیۃالاشتراکیۃ۔ جماہیریہ مرحوم معمر قذافی کے ذہن کی خاص اختراع تھی‘ کہا کرتے تھے دنیا میں جمہورتیں ہیں۔ لیکن لیبیا تمام جمہوریتوں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ بلکہ ان جمہوریتوں کی ماں ہے اس لئے اسے الجماہیریہ کا نام دیا گیا ہے۔ قذافی صاحب بدترین اور بے رحم قسم کے آمر تھے۔ خون آشامی میں سٹالن اور خرشیف کو بھی پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ سنتے تھے کہ مطالعہ کا شوق بھی رکھتے تھے۔ جماہیریائی فلسفہ کا پٹہ غریب ہمسایہ ملکوں کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ چاڈ (جنوبی ہمسایہ عرب ملک) کے ایک نوجوان نے کتاب الاخضر زبانی یاد کر لی‘ بس پھر کیا تھا دولت کے بوروں کے منہ کھل گئے۔ لیبیا رقبے کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے ممالک میں سے ہے۔ 1977ء میں صرف تیل کی آمدنی دس ارب ڈالر تھی۔ منہ بند رکھنے کے عوض عوام کو کیا ملکی اور کیا اجنبی‘ کھانے پینے کی چیزوں میں دل کھول کر سبسڈی دی گئی تھی۔
خیال کیجئے‘ چینی اور آٹے کی بوری ڈیڑھ دینار (ایک دینار 3.35ڈالر) کی ملتی تھی۔ دیسی گھی کا ایک ڈھائی کلو کا کاٹین ڈھائی دینار میں۔
ان اچھے کاموں کو قذافی حکومت کے ظلم و ستم نے برباد کیا۔ مملکت کی مخالفت کے شبہ میں گولی سے اڑا دینا عام بات تھی۔ لوگ ہروقت خائف اور خوفزدہ رہتے تھے۔ مغرب واقع میں ہمسائے ملک تونس(تیونس) وہاں عرب بہار کالا واکیا پھوٹا‘ کہ لیبیا کو بھی بہا لے گیا دیراس لئے نہ لگی‘ کہ زمین ہموار تھی کچھ امریکہ نے مدد دی عرب بہار وہاں سے نکل کر مصر جا پہنچی‘ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو خدشہ ہوا کہ اگر یہی ہوا چلتی رہی تو علاقے میں امریکی مفادات اور اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔ چنانچہ مصرمیں عرب بہار کے آگے یوں بند باندھا کہ افوان المسلمون کی منتخب حکومت (مرسی مرحوم) کا تختہ الٹا اور اس کی جگہ فوجی آمر عبدالفتاح السیسی کو لا بٹھایا گیا۔ تا ہم عرب بہار کے جھونکے شام میں داخل ہو گئے‘ جہاں پندرہ فیصد آبادی کے حامل علویوں سے تعلق رکھنے والا اسد خاندان کئی دہائیوں سے آمر مطلق تھا۔ طرز حکمرانی اور ظلم و ستم کے لحاظ سے قذافی کے پکے مرید تھے لوگ تنگ تھے عرب بہار کے جھونکے پہنچے تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ شام کی عمومی صورتحال یہ تھی کہ روس اور چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ عرب بہار کی کامیابی کی صورت میں روس اور چین کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دینے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ تیسری طرف علوی شیعہ ہونے کے باعث بشارالاسد‘ ایران کے برخورداروں میں تھا۔ جسے بچانا ایران نے اپنے اوپر لازم قرار دے دیا ۔ چنانچہ ایران نے اس محاذ کی کمان جرنیل قاسم سلیمانی کے ہاتھ دے دی‘ ایران کی موثر مداخلت کے باعث بشار حکومت بچ گئی مگر اور عصر حاضر کا المیہ شامیوں کی ہجرت کی صورت میں ظاہر ہوا شام میں بے پناہ خونریزی ہوئی۔ حکومت کے اتحادیوں کے طیاروں نے بمباری کر کے شہروں کے محلوں کے محلے اڑا دیئے۔ مگر امریکہ نے روس اور چین کے ڈر سے شام میں مداخلت سے پرہیز کیا۔ اگر لیبیا کی طرح شام کو بھی ایک ہفتہ کے لئے نان فلائی زون قرار دے دیا جاتا تو شام کا المیہ جنم نہ لیتا افسوس تو ان بعض عرب مملکتوں پر ہے جنہوں نے عرب بہار کی راہ روکنے کے لئے شام اور شامی عوام کو بھیڑیوں کے حوالے کر دیا۔ پہلے فلسطینی مر رہے ہیں۔ اور اب شامیوںپر اپنوں کے ہاتھوں قیامت ٹوٹ پڑی۔ ترکی نے شام کی دوستی کی آڑ میں اور مصر کے عبد الفتاح السیی نے عربوں کے ذہنوں میں ’’آزادی اور جمہوریت‘‘ کے خناس کو نکالنے کے لئے اس کشت و خون کی پشت پناہی کی۔
امریکہ نے بلاشبہ لیبیا میں آمریت کے خاتمے میں اہم بلکہ بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن بھاری غلطی یہ کی کہ لیبیا کو انار کی صورت میں چھوڑ دیا۔ لیبیا‘ مختلف قبائل پر مشتمل ملک ہے۔ قذافی کے آہنی ہاتھوں نے انہیں یکجا اور قابو میں رکھا ہوا تھا۔ لیکن چاہئے تھا کہ جب تک قذافی کی پچاس ساٹھ سالہ آمریت کی جگہ ایک مضبوط و مربوط نظام قائم نہ ہو جاتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک رخصت ہونے سے احتناب کرتے۔ لیبیا میں بری طرح خانہ جنگی شروع پء اور یہ خانہ جنگی دہشت گردی اور تباہی و بربادی کو جنم دے کر ہی ختم ہو گی۔ پھر امریکہ اور نیٹو ممالک افریقہ میں افغانستان کے مناظر تخلیق کرتے نظر آئیں گے۔ بعض عرب مملکتوں نے عرب بہار کو خوفناک دیو سمجھا اور اس کے خلاف نبروآما قوتوں کے ہم سفر ہو گئے۔ عجم کی عرب میں مداخلت اور کچھ عرب مملکتوں کی باہمی مخاصمت ان کے سارے وسائل چاٹ کر رہے گی۔ ایران کی ملکوں کے معاملات میں مداخلت اور خانہ جنگی شروع کرانا کیثر المقاصد پالیسی ہے۔ ایک تو امام خمینی کی ہدایت پر شیعہ انقلاب کی برآمدگی کی دوسرا عربوں کے وسائل غیر ترقیاتی کاموں پربرباد کرنا اور تیسرا اس پورے خطے کو اپنے حلقہ اثر لانا ہے۔ جس کا انجام کا رفائدہ بھارت کو ہو گا۔ بقول صدر حسن روحانی ایران کے بھارت سے برادرانہ تعلقات ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور عرب بہار
Feb 04, 2020