اسلام آباد (جاوید صدیق، محمد رضوان ملک) سابق وزیر داخلہ اور ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ موجودہ حکومت میں اس کی اہلیت ہے اور نہ اس کی کوششوں میں خلوص نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کشمیر کے معاملے پر اپنی ایگو کو ایک طرف رکھ کر مل بیٹھیں اور آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔ عالمی سطح پر مودی کی سفارتکاری ہم پر بھاری ہے، ہم تو اپنی مرضی سے ملائیشیا تک نہیں جاسکتے ،نہ جانے حکومت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے سے کیوں کترا رہی ہے حالانکہ ہمارے پاس اس حوالے سے بے پناہ مواد موجود ہے۔ اگر حکومت خود ہمت نہیں کر رہی تو آزاد کشمیر حکومت یا متاثرین کو بھیج دے۔ اگر حکومت نہ گئی تو خود اس کو لے کر عالمی عدالت انصاف میں جائوں گا۔ افسوس کی بات ہے کہ تاحال کسی نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ سے رجوع نہیں کیا کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے ، مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کا سربراہی یا وزرائے خارجہ کی سطح کا اجلاس ہوا اور نہ پارلیمانی وفود بھیجے گئے، مسئلہ کے حل کے حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ موجودہ حکومت کی کمزوری کے باعث بھارت نے کشمیر پر اتنا بڑا قدم اٹھایا، گھر میں ماتم کرنے کی بجائے ہم اس پر بیرون ملک متحرک ہونا ہوگا۔ حکومت کومسئلہ کشمیر کے حوالے سے دفاعی پالیسی سے باہر نکل کر جارحانہ پالیسی اپنانا ہوگی،اس کے لئے بجٹ رکھنا چاہیے۔ کشمیر کو ددنوں ممالک میں تقسیم کرنے کی باتیں افواہیں ہیں عوام کسی صورت اس کو قبول نہیں کریں گے تاہم میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متحرک کیوں نہیں ہورہی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امن پالیسی قابل عمل ہے اور مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ جو حکومت قرضہ ملنے کی خوشیاں منائے وہ مہنگائی کیا کم کرے گی ، تاحال پرائس اور کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نہیں بن سکی ان خیالات کا اظہار انہوںنے ’’نوائے وقت اور دی نیشن ‘‘کو پینل انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ پینل میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر نوائے وقت جاوید صدیق، ایڈیٹر نیشن سلمان مسعود، سنئیر رپورٹرز شفقت علی، عمران مختار اور رضوان ملک شامل تھے۔ رحمان ملک نے کہا مودی کی سفارتی کاری ہم سے زیادہ کامیاب رہی ہے اس کی کامیاب سفارتکاری کی بدولت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوستوں نے بھی ہمار ا ساتھ نہ دیا۔انہوں نے کہا مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اس وقت باتوں سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حکومت کی کمزوری کے باعث بھارت کشمیر پر پابندیاں لگانے میں کامیاب ہوا۔ بدقسمتی سے ہم FATF سے نکلنے کے لئے امریکہ کو استعمال نہیں کر سکے حالانہ اسے اس وقت افغانستان میں ہماری ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا نہ جانے حکومت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں کیوں نہیں جارہی حالانکہ اس حوالے سے چار خطوط لکھ چکا ہوں۔انہوں نے گمبیا جیسا ملک عالمی عدالت میں چلا گیا لیکن ہم نہ جاسکے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت خود جانے سے گھبرا رہی ہے تو آزاد حکومت یا متاثرین کو بھیج دے انہوں نے کہا بھارت نے کشمیر میں مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ خود بھارتی جنرل کہ چکے کہ خواتین کی عزتیں لوٹ لیں، انسانیت کے خلاف جرائم کی بنا پر ہم جاسکتے،متنازعہ شہریت بل کے بعد تو بھارت عالمی سطح پر بدنا م ہوچکا اور یہ بہت آسان ہوگیا ہے۔ حکومت نہ گئی تو میں خود عالمی عدالت انصاف میں جائوں گا۔ انہوں نے اس پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ آج تک کسی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کو اقوام متحدہ میں بھی چیلنج نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت کشمیر میں فوج نہیں رکھ سکتالیکن کسی نے آج تک اقوام متحدہ کو یہ نہیں کہا کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے۔ کشمیر پر تو مودی کی سفارت کاری ہم پر بھاری ہی تھی اس مسئلے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ہمارا ساتھ نہ دیا تاہم اس وقت مودی متنازعہ شہریت بل کے باعث پوری دنیا میں تنہاء ہورہا ہے۔ خود بھارت کے اندر سے بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لیکن ہم اس موقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ انہوں نے تجویز کیا حکومت کومسئلہ کشمیر کے حوالے سے بجٹ رکھنا چاہیے۔اسے اب دفاعی پالیسی سے آگے بڑھ کر جارحانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔ آٹھ ماہ میں ہم کرفیو ختم نہیں کراسکے تو اور کیا کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی بھی بری طرح ناکام ہوئی۔انہوں نے کہا بھارت نے چاروں طرف سے پاکستان کو گھیر رکھا ۔ افغان صدر اشرف غنی بھی بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کو ددنوں ممالک میں تقسیم کرنے کی باتیں افواہیں ہیں عوام کسی صورت اس کو قبول نہیں کریں گے تاہم انہوں نے کہا میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متحرک کیوں نہیں ہورہی ۔ انہوں نے تجویز کیا کہ حکومت کرپشن کا پیسہ واپس لے کر مسئلہ کشمیر کے حل پر لگائے۔ ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان ، ایران، افغانستان اور امریکہ کو مل بیٹھنا ہوگا۔انہوںنے واضح کیا کہ بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی کرے۔ انہوںنے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کے قوانین کمزور ہیں پاکستان میں کبھی کسی کا احتساب ہوا ہی نہیں اگر کسی کو احتساب کوخوف ہوتا توگندم اور چینی کا بحران نہ آتا۔ جو حکومت قرضہ ملنے کی خوشیاں منائے وہ مہنگائی کیا کم کرے گی ،اس گروتھ ریٹ اور شرح سود کے ساتھ مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہے تاحال پرائس اور کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نہیں بن سکی۔ سارک پر بھارت کا کنٹرول ہے اس لئے اس سے بھی کیس بریک تھرو کی توقع نہیں پھر وہاں ہر ملک کو ویٹو کا اختیار ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ نہیں چاہتا کہ چین علاقے میں متحرک ہو۔ انہوں نے کہا میڈیا بھی مسئلہ کشمیر پر زیادہ متحرک نہیں ہے پمرا کو چاہیے کہ وہ ہر چینل پر پابندی لگائے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے لئے وقت نکالے۔
مسئلہ کشمیر پس پشت ڈال دیا گیا، قرضہ ملنے پر خوشیاں منانے والے مہنگائی کیا کم کرینگے: رحمان ملک
Feb 04, 2020