اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر)جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں جج کیخلاف ریفرنس پر کارروائی ہوتی ہے، کیس میں پہلا نقطہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اے آر یو یونٹ کو کس نے دیا،کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیاصدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی اپنے دلائل میں وکیل بلاول منٹو نے موقف اپنایا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 209 میں ترمیم کی گئی، آئینی ترمیم میں ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیارات کو نہیں چھیڑا گیاآرٹیکل 209 کے تحت صدر کا کردار آزادانہ ہے، صدر مملکت کو آرٹیکل 209 میں وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند نہیں کیا جا سکتااٹھارہویں ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو آزاد کر دیا گیا،حکومت صرف صدر کو جج کیخلاف معلومات فراہم کر سکتی ہے جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگااگر کوئی جج کیخلاف درخواست حکومت کو دینا چاہے تو کیا ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی سیاسی جماعت بھی صدر سے ریفرنس کیلئے رجوع کر سکتی ہے؟ وکیل بلال منٹو نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کاروائی مکمل ہونے تک جج کام کرتا رہتا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف پر سابق چیف جسٹس نے آرٹیکل لکھا تھا، سابق جسٹس کے مطابق آرٹیکل 62 ون ایف آئین کے غیر موافق ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاسابق چیف جسٹس کی یہ اکیڈمک رائے تھی، تاہم جوڈیشل رائے میں آرٹیکل 62 ون ایف کی توثیق کردی گئی ہے، آرٹیکل 62 ون ایف پر لارجر بینچ نے فیصلہ دیا ہے، بلال منٹو نے کہااس طرح ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ بھی عجیب سا ہے اور مبہم کوڈ آف کنڈکٹ پر کسی جج کو سزا نہیں دے سکتے،بلال منٹو کے دلائل مکمل ہونے پر پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل طارق خان ہوتی نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ عصدر مملکت وزیراعظم کو ریفرنس بھیجنے کی ایڈوائس کے پابند نہیں،صدر مملکت کو ریفرنس کے معاملے اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا چاہیے صدر مملکت کو سیاسی وابستگی سے بالاتر اور غیر جانبدار ہونا چاہیے،صدر مملکت غیر جانبدار نہیں ہوگا تو سیاسی قوت کے دباو کا شکار ہوگا،فیصلوں پر ججز کو ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے،بدنیتی سے دائر ریفرنس کے بھی نتائج ہیں، دوران سماعت اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سے متعلق رپورٹ جمع کرواتے ہوئے بتایاکہ جسٹس قاضی کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اپنے گوشوارے کراچی میں فائل کررہی ہوں، جسٹس قاضی کی اہلیہ کہتی ہیں کہ جب آمدن قابل ٹیکس نہیں رہی تب ریٹرن فائل نہیں کیے، جسٹس قاضی کی اہلیہ نے اسلام آباد سے ریکارڈ کراچی منتقل کرنے کی درخواست کی ہے ایف بی آر کے مطابق جسٹس قاضی کی اہلیہ آن لائن سہولت ہے ذریعے کہیں سے بھی ریٹرن فائل کرسکتی ہیں،مسز عیسی نے 2012، 2013 میں آن لائن ریٹرن فائل کیے، ایف بی آر کے مطابق مسز عیسی کو 2015 کے بعد ریٹرن نہ جمع کروانے پر نوٹس کیے گئے،مسز عیسی کے ریٹرن کا ریکارڈ کراچی بھجوادیا ہے، مسز عیسی کو بھی ایف بی آر کی رپورٹ سے آگاہ کردیا ہے جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کب دلائل دیں گے، اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے مقدمے کی تیاری کے لیے وقت دیا جائے عدالت کے ہر سوال کا جواب دوں گا، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاپہلا نقطہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اے آر یو یونٹ کو کس نے دیا،کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا، اٹارنی جنرل صاحب ان دونوں قانون نکات کے جواب بہت اہم ہیں، جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی