کل پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کشمیری اور پاکستانی ہیں یومِ یکجہتی ٔ کشمیر ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جوش و ولولے سے منایا جائیگا۔ کشمیریوں پر بھارت مظالم کے پہاڑتو عرصہ دراز سے توڑ رہا ہے۔مگر اسکے آئین میں 370اور35اے کی شقوں کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کے زخموں پر شدت سے نمک پاشی کی گئی۔ مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیریوں سے جو آزادی کی تمنا اور تڑپ لئے ہوئے تھے ان سے وطن مالوف بھی چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اس شب خون کاگھاؤ ابھی تازہ ہے جس سے خون ٹپک رہا ہے۔کشمیری شدید اذیت سے دوچار ہیں جس کا ادراک نہ صرف پورے عالم اسلام کو ہے بلکہ غیر جانبدار دنیا بھی شب خون کے بعد بھارتی بربریت میں اضافے سے تڑپ گئی ہے۔ اسی دوران مودی سرکار نے بھارت میں امتیازی اور متنازعہ شہریت قانون نافذ کر کے مسلمانوں سے تعصب کا مظاہرہ کیا اس قانون کو اقلیتوں سمیت ہندو اکثریت بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کل یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر بھارت کے اندر زیادہ باغیانہ جذبات کا اظہار متوقع ہے۔کچھ لوگوں کی بے جا رائے میں یومِ یکجہتی کا کوئی فائدہ نہیں۔ یومِ یکجہتی کا مقصد جلسے جلوسوں سے کشمیر کو آزاد کرانا نہیں مگر آزادی کی طرف پیشرفت ضرور ہے۔ آپ نے رائے عامہ کو کشمیریوں کی حمایت میں ہموار کرنا ہے۔ دنیا کو اصل ایشو سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا آگاہ ہو گی تو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دباؤ بڑھے گا۔بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تو کشمیری اشتعال میں آئے۔ پورے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ بھارت کو کشمیریوں کے زبردست احتجاج کا احساس ہوا تو اُسی شام ظالمانہ کر فیو نافذ کر دیا جس کو چھ ماہ سے بھی زیادہ کا وقت گزر گیامگر کرفیو میں سرِ مو نرمی نہ آ سکی، کرفیواُٹھانا تو دور کی بات ہے۔ پاکستان نے بھی کشمیر کاز میں زبردست سفارت کاری کی۔دنیا کے گوشے گوشے میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم واضح کئے۔آج پوری دنیا کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے۔ کشمیر ایشو ہی کی طرح فلسطین ایشو بھی ہے۔وہ بھی آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ سُلگ رہا ہے۔ فلسطین نے تنگ آمدبجنگ آمد نے مصداق معاہدہ اوسلوہی منسوخ کر دیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام پہنچا دیا ۔ فلسطینی صدر نے امریکہ اور اسرائیل سے تمام تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دیا ۔یاد رہے 133 برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے امریکی صدرکے منصوبہ کی مخالف کرتے کہا یہ فلسطینیوں کے حقوق بین الاقوامی قوانین پر کاری ضرب ہے جبکہ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ عرب اردن کے علاقوں کو یکطرفہ طور پر اسرائیل میں شامل کرنے سے امن کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
1994ء میں اوسلو میں جس معاہدے پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں نے دستخط کیے تھے وہ پہلے ہی فلسطینیوں کے حقوق کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ۔ بالخصوص اسکے تباہ کن اثرات فلسطینیوں کے حق واپسی پر پڑے اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے نکالے گئے لاکھوں فلسطینی باشندوں کی اپنے وطن واپسی زیادہ مشکل بنا دی گئی۔ اوسلومعاہدے میں فلسطینیوں کے بنیادی مطالبات اور انکے دیرینہ اصولوں اور حقوق کے بارے میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ خاص طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا صرف مبہم اشارہ موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کو فلسطینیوں کے اس بنیادی اوردیرینہ قومی مطالبے میں کوئی دلچسپی نہیںتھی۔اوسلو معاہدے کی دستاویز میں لکھا ہے کہ پناہ گزینوں کے مسئلے کا"منصفانہ حل" تلاش کیا جائیگا۔ اس کیلئے اسرائیل اور فلسطینیوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جو اس مقصد کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں گی تاہم مقبوضہ علاقوں میں آباد کیے گئے یہودی آباد کاروں کے وجود اور انکی شہریت کو بھی تسلیم کیا جائیگا۔ اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں جنگی بنیادوں پر یہودی کالونیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ بھی مسلمانوں کے کئی ایشوز ہیں مگر یہ دونوں تو زیادہ ہی تشویشناک ہیں ۔ اقوامِ متحدہ سے دونوں کے حل کی امید نہیں رکھی جا سکتی البتہ مسلمان ممالک متحد ہو جائیں تو حل کی شکل نکل سکتی ہے۔ بااثر مسلم ممالک کے پوری دنیا سے رابطے اور تعلقات ہیں۔ بہت سے مغربی ممالک کے مسلم ممالک کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ یہ متحد ہو جائیں تو کشمیر اور فلسطین ایشوز کے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی خواہشات کے مطابق طے ہونے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔