بےشمارلازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کواس دنیا سے رخصت ہوئےتین برس گزرگئے ۔
اردو زبان کی معروف افسانہ اور ناول نگار، ڈرامہ نویس بانو قدسیہ 28نومبر 1928کو فیروزپور بھارتی پنجاب کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ بانو قدسیہ نے پانچویں جماعت سے لکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا اور سکول کے ایک ڈرامے کے لیے کہانی لکھی اوراول انعام حاصل کیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہندوستان سے ہی حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئیں ۔ہجرت کے بعد لاہور رہیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی ۔بانو قدسیہ نے اسلامیہ کالج سے ایف اے جبکہ کنئیرڈ کالج سے بی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 1950 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اردو کیا اور ایم اے کے دوران ہی معروف مصنف اور ادیب اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ "آمادگی شوق" ادبی جریدے ' ادبِ لطیف ' شائع ہوا۔ 1951 میں ان کے ہی ہم جماعت نے انہیں اپنا ہم سفر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور اس طرح آپ اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں ۔ اشفاق احمد معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، اور براڈ کاسٹر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔
معروف مصنف ممتاز مفتی نے اپنی تصنیف "الکھ نگری‘" میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی شادی کام قصہ دلچسپ انداز میں بیان کیا ،جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ان کی شادی غیر پٹھان لڑکی سے کرنے پرآمادہ نہیں تھا اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔
بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مقبول ڈرامے لکھے۔بانو قدسیہ کی مشہور کتابوں میں، امربیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، ناقابلِ ذکر، پیا نام کا دیا، شہرِ بے مثال، دست بستہ، آتش زیرپا، آدھی بات، ایک قدم ،دوسرا دروازہ، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام ، کچھ اور نہیں، موم کی گلیاں، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔ 1981 میں انہوں نے ناول "راجہ گدھ " لکھا جس نے بے بناہ مقبولیت حاصل کی ۔
بانو قدسیہ اپنے ناول " راجہ گدھ" میں محبت کے بارے میں لکھتی ہیں کہ محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے، محبت سادہ لباس میں ملبوس عمر وعیار ہے، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ہے، اُس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشاں گِرا ہوتا ہے، محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ اورکچھ سزا نہیں ہوتی، ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے،محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے، کہیں ٹکتا نہیں، محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے، جب تک روز اُس تصویر میں رنگ نہ بھرو، تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے، روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا۔ اِسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو، رات رہتی ہے۔"
بانو قدسیہ کے ناول سادہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے تھے ۔ان کی بعض ناولزمیں انگریزی زبان کےالفاظ بھی شامل ہوتے تھے۔اردو ادب میں ان کی بےپناہ خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں 1983 میں ستارہ امتیاز اور 2010 میں ہلال ِامتیاز سے نوازا گیا ۔ حکومت کی جانب سے انہیں 2012 میں کمالِ فن ایوارڈ اور 2016 میں اعزازِ حیات سے بھی نوازا گیا ۔
شدید علالت کے باعث اردو ادب کا یہ روشن ستارہ 4 فروری 2017 کو دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ گیا۔ ان کی لکھی گئی لازوال تصانیف کی آج بھی یہ اردوادب سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں ۔