جنونیت ایسی کیفیت ہے جس کسی بھی انسان پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت انتہائی منفی درجے پر پہنچ جائے۔ جائزہ لیا جائے تو بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ نے بی جے پی کی شکل میں ہندوتوا کے تعصب کی آگ بھڑکا کر اقتدار حاصل تو کر لیا مگر اب اس آگ کو بھڑکائے رکھنا سیاسی مجبور ی بن گئی ہے۔یہ آگ سب سے زیادہ بی جے پی کے کارکنوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بھسم کر کے انہیں روز بروز جنونیت میں مبتلا کر تی جا رہی ہے۔ جس نے پورے بھارت میںمسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ سیاسی مخالفت کرنیوالے ہندووں کیلئے بھی نفرت کے الاؤ دہکا دیئے ہیں۔ یہ جنونیت کی انتہا ہے کہ رام کا تقدس بھی خاک میںملایا جا رہا ہے۔ کسی مذہبی تقریب یا مذہبی تہوار کے موقع پر نہیںبلکہ ہر منفی عمل اور پر تشدد واقعات میں شری جے رام کے نعرے لگتے ہیں۔ اتر پردیش کے شہر سہارنپور میںبس اڈے پر واقع عوامی بیت الخلاء کے حوالے سے محسوس ہواکہ یہ مسلمانوں کیلئے طہارت کی سہولت ہے تو یہ بھی برداشت نہ ہو سکا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند کارکنوں نے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے اس بیت الخلاء پر دھاوا بول دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار سابق نائب صدر حامد انصاری کے بقول بھارت میں مسلمانوں کیلئے شدید مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہجومی تشدد کے واقعات نے اقلیتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے ۔ مودی حکومت نے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا ہے جس کے نتیجے میں خود ہندو بھی ہجومی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ 2014 کے بعد حکومت کی ڈکشنری سے سیکولر ازم کے الفاظ غائب ہو چکے ہیں۔
بھارت میں منفی عمل کیلئے 6 ستمبر 1992 کو پہلی بار بابری مسجد کے انہدام کے موقع پر جے شری رام کے نعرے کا رواج پڑا۔ رام کے اس طرح استعمال پر کوئی ہندو بھی انگلی اٹھائے تو اسے بھی ہندو مخالف، رام مخالف اور ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔
مسلمانوںکے ساتھ متعصبانہ سلوک کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جائے کہ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر سراپا احتجاج کسان لال قلعہ پر چڑھ دوڑے ۔ اس دوران درجنوں پریس والے زخمی ہوگئے۔ قلعہ پر سکھوں کا مذہبی جھنڈا لگا دیا گیا مگر کسی ایک کسان سکھ رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ محض مقدمات درج کر کے مذاکرات ، مذاکرات کا کھیل جاری ہے۔ قلعہ پر سکھوں کا مذہبی جھنڈا لگانے والے کو سکھ جان کر بھارتی میڈیا نے خوب اودھم مچایا لیکن یہ انکشاف ہوا کہ وجہد کاردیپ سدھو بی جے پی کا کارکن ہے او ر مودی کے ساتھ اس کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ یاد رہے بھارتی اداکار سنی دیول نے بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا تو یہ سدھو اس کا الیکشن انچارج تھا۔ شناخت کے باوجود اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اس کا مطلب ہے سدھو نے بی جے پی لیڈروں کے اشارہ پر یہ کام کیا تاکہ اسے بنیاد بنا کر سکھوں کے خلاف خالصتان بنانے کا پروپیگنڈہ کیا جائے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ سکھوں سے نرمی کیا سکھوں کیلئے مودی سرکار میں نرم گوشہ پائے جانے کی وجہ ہے ہرگز نہیں ۔ اس نرمی کی مجبوری بھارتی افواج میں بڑی تعداد میں سکھوں کی موجودگی ہے اس طرح ٹی وی چینل کا ارنب گو سوامی جس نے بالا کوٹ حملے کے ڈرامے کا پول کھول دیا تھا ، سپریم کورٹ نے شخصی آزادی کے نام پر ضمانت منظور کر لی ۔ حکومتی وکیل نے کوئی مخالفت نہیں کی کیونکہ ارنب گوسوامی وزیر اعظم مودی کے بہت قریب ہے۔
اب ذرا تصور کیا جائے کشمیر کے مسلمان اپنے مطالبات منوانے کیلئے سکھ کسانوں کی طرح کا احتجاجی مظاہرہ کریں اور لال قلعہ تک پہنچ جائیں تو کیا ان کے ساتھ بھی مذاکرات در مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ انہیں تو سرینگر میں احتجاج کرنے پر آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے حتیٰ کہ شہریت قانون این آر سی اور این پی آر کیخلاف احتجاج کرنے والے بھارتی مسلمانوں پر پاکستان کے اشارے پر ایسا کرنے کے الزامات لگا کر انکے خلاف غداری کے مقدمات درج کرائے گئے ۔ احتجاج میںشریک خواتین پر تشدد کیا گیا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں۔
بھارتی فوج کی اخلاقی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ایڈلڑی قانون کو جرم ہی رہنے دیا جائے ورنہ فوج میں ڈسپلن متاثر ہوگا۔ یاد رہے بھارتی سپریم کورٹ نے 2018 میں غیر ازدواجی تعلقات کو جرم کے دائرے سے نکال دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق غیر ازدواجی جنسی تعلقات کوئی جرم نہیں ہے نہ ہونا چاہیے۔ عدالت نے اس حوالے سے ایک صدی سے زائد پرانے نو آبادیاتی دور کے قانون کو خواتین کیخلاف امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے کہا تھا یہ قانون خواتین کو ذاتی انتخاب کے حق سے محروم کرتے ہوئے صرف شوہر کو یہ حق دیتاہے کہ وہ خواتین کو بطور منقولہ مال استعمال کر سکتے ہیں۔ حکومت نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ جب کوئی فوجی دور دراز علاقوں میں تعینات رہتا ہے ایسے جب فوج کے دوسرے اہلکار یا آفیسر چھٹی پر جاتے ہیں تب اپنے خاندان والوں سے دور فوجی اہلکاروں کو یہ فکر ستا تی ہے کہ کوئی غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے قانون سے فائدہ اٹھا کر ان کی فیملی کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہی۔ اس لئے ایڈلڑی (حرام کاری) قانون کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔ بھارت کے بعض قانون دانوں کے مطابق اگر کوئی فیملی نا مناسب حرکت میں ملوث ہوتی ہے تو یہ قانون کیسے رکاوٹ بن سکتا ہے دوسرے یہ کہ نا مناسب حرکت کیلئے چھٹی پر آنیو الا اہلکار یا آفیسر ہی کیوں، وہ اپنے شہر ، محلے کاشخص یا رشتہ دار بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم ایک خاتون وکیل کشوری دیوی کے مطابق اس قانون کے نہ ہونے سے فوجیوں کی خواتین کو حاملہ ہونے کے خوف سے بے نیاز کر دیا ہے جس سے فوج میں بے چینی اور فکر مندی پھیلنے پر حکومت نے اس قانون کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
دہلی کی سرحد پر کسانوں کا دھرنا جاری ہے ۔ کسان یونین کے ترجمان راکیش نکت نے کہا ہے کہ اگر حکومت پانچ سال چل سکتی ہے تو کسان تحریک اتنی مدت کیوں نہیں چل سکتی۔ مودی سرکار بھول جائے کہ کسان مطالبات منوائے بغیر واپس چلے جائینگے۔ راکیش نکت کی اپیل پر کسان تحریک میں عوام کا کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ غازی پور بارڈر پر کسانوں کے ہجوم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مغربی اتر پردیش کے کسان بھی رات رات یہاں پہنچ گئے حالانکہ پولیس نے خار دار تاریں لگا کر اس طرف آنیو الی قومی شاہراہ 24 کو مکمل طورپر بند کر دیا تھا جبکہ نوئیڈا سیکٹر 62 سے اکثر دھام جانے والی سڑک بھی رکاوٹ کھڑی کر کے بند کر دی گئی تھی۔ انتہا پسند ہندو مافیا نے مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں مسلمانوں کے قبرستانوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے قبرستان کیلئے دی جانے والی اراضی مقامی انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے قبضہ میں کی جا رہی ہے۔ علماء بورڈ کے سروے کیمطابق قبرستانوں کیلئے مختص کیے جانیوالے 187 قطعات میں سے صرف 32 جگہیں ہی بچی ہیں باقی 155 مقامات پر قبضہ کر کے عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ اسکے نتیجے میں مسلمان اپنے مردے گھروں میں ہی دفن کر رہے ہیں۔
بھارت میں مودی سرکار کے دور میں آزادی صحافت پر بھی پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ کسان تحریک کی کوریج کرنے والے صحافیوں کیخلاف مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کیا جار ہا ہے جبکہ بہت سی جگہوں پر انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی اور سیکرٹری جنرل پرنیکا گاندھی نے کہا ہے کہ مودی حکومت سچ بولنے والوں سے ڈرتی ہے۔ انڈیا ایڈیٹرز گلڈ نے بھی صحافیوں کیخلاف حکومتی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے اور مقدمات واپس لے کر گرفتار صحافیوں کی بلا مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔