کشمیر پرمتفقہ قومی اور سرکاری موقف

منگل کے روز سمیع اللہ بھٹی کی گفتگو پر مبنی میرا کالم’’ کشمیر کا نامکمل ایجنڈا ‘‘شائع ہوا تو انھوں نے صبح سویرے میرے  گھر کی گھنٹی دبا دی ۔میں حیران تھا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے،باہر دیکھا تو ایک بڑی سی گاڑی نظر آئی ،ایک لمحے کے لیے میرے دل میں کھٹکا سا محسوس ہوا کہ یہ تو کوئی پراسرا رسے لوگ ہیں جو مجھے اٹھا کے لے جائیں گے،ان میں سے ایک صاحب نے فرط جذبات سے مجھے گلے لگا لیا اور بتایا کہ وہ سمیع اللہ بھٹی ہیں۔ان کا لب ولہجہ جذبات سے لبریز تھا،انھوں کہا کہ ہمیں چائے کی پیالی پلائیں،قائد اعظم کے نظریہ کشمیر کی تشریح تو سامنے آگئی ،لگے ہاتھوں ہم اپنی قوم اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ ہر کوئی قائد اعظم کے نظریہ کشمیر پر کار بند ہے ۔پھر چائے کی میز پر جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
کشمیر کے مسئلے کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس پر پاکستان بھر میں ایک متفقہ موقف اپنایا جاتا رہا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جب دیکھا کہ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے تو انھوں نے مسلمانان پاکستان کے لیے پیغام چھوڑا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
کشمیری مسلمان تہتر برس سے بھارت کے جبر وستم کا شکار ہیں،ابتدا میں پاکستان نے سرسری سی کوشش کی اور تھوڑا سا حصہ آزاد کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ مسئلے کے حل کے لیے بھارت کی ہٹ دھرمی آڑے آرہی ہے ،اس نے کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں نو لاکھ فوج جھونک رکھی ہے ،ہر کشمیری کے سر پر ایک بھارتی فوجی سنگین تانے کھڑا ہے۔
 یہ امر خوش آئند ہے کہ اہل پاکستان نے کشمیریوں کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔حضرت قائد اعظم نے یہ بنیادی فلفسہ دے دیا کہ کشمیر پاکستا ن کی شہ رگ ہے،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارت کے مکروہ عزائم دیکھے تو ایک مکہ لہرایا۔ایوب خان کے دور میں کشمیر کی آزای کے لیے ایک بڑی کوشش کی گئی مگر بھارت نے تمام بین الاقوامی اصولوں کو بالائے  طاق رکھتے ہوئے بین الاقوامی سرحدوں کو نشانہ بنایا اور ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا۔فیلڈ مارشل نے اپنے رنگ میں ایک مختصر نشری تقریر کی اور قوم میں یہ جذبہ پھونکا کہ لاالہ کاودر کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔بھٹو زخموںسے چور چور پاکستان کے سربراہ بنے تو انھوں نے بھارت پر واضح کیا کہ کشمیر کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔دوسری طرف انھوں نے قومی دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے اعلان کیا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے۔ محمد خان جونیجو نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم پر اٹھایا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں برلن دیوار ٹوٹی،مشرقی یورپ میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں تو وادی کشمیر کے لوگ بھی جابر بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔اس موقع پر محترمہ نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا اور عالم وارفتگی میں اپنا دوپٹہ ہوا میں لہرایا اور نعرے لگائے،آزادی ،آزادی، آزادی۔جنرل پرویزمشرف کے دور میں امریکن صدر بل کلنٹن بھارت کے پانچ روزہ طویل دورے کے بعد چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آئے تو انھوں نے شہنشاہ عالم کی طرح امریکی سفارت خانے میں بیٹھ کر پاکستانی عوام سے براہ راست نشری خطاب کیا۔ انھوں نے دھمکی دی کہ آج کی دنیا میں طاقت سے سرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ انھوںنے یہ دھمکی بھی دی کہ پاکستان اپنی سر زمین کو کشمیر میں جدوجہد آزادی کے لیے استعمال نہ ہونے دے ،صدر پرویزمشرف نے ترکی بہ ترکی امریکی صدر کی نشری تقریر کے جواب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے خاندان  آزاد کشمیر اورپاکستان بھر میں بکھرے ہوئے ہیں، اس لیے جب کبھی  بھارتی فوج اہل کشمیر پہ ستم ڈھاتی ہے ۔آزاد کشمیر اور پاکستان میں پھیلے ہوئے کشمیری ان مظالم کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،حکومت پاکستان انھیں ایسا کرنے سے نہیںروک سکتی۔
اب عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں تو وہ کھلے عام کشمیریوں کے حق میں بولتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے وکیل بنیں گے اور ان کے سفیر بنیں گے ۔جنرل اسمبلی اور مختلف عالمی فورمز پر انھوں نے یہ حق ادا کرکے دکھایا بھی۔پچھلے دو برسوں میں سلامتی کونسل کے تین خصوصی اجلاس ایسے ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر پر غور کیا گیا۔انیس سو انچاس کے بعد بیس سو بیس میں یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی گردانی جاتی ہے کیونکہ سلامتی کونسل کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ کشمیر پر حق خودارادیت کی قراردادیںمنظور کرنے کے بعد خواب خرگوش میں مست ہے۔یہ پروپیگنڈہ اب باطل ثابت ہوگیا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے وہ بھی مسئلہ کشمیر پر یکسو ہیں اور تمام ترمذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود کشمیرکے لیے ہم آواز ہیں۔
پیپلزپارٹی ہو یا جماعت اسلامی،ایم کیو ایم ہو یا شیرپائو صاحب کی پیپلز پارٹی،اے این پی ہو یا کوئی بلوچستان کی وطن پرست جماعت کشمیر کے لیے سب متحد ہیں،آزاد کشمیر کے تمام سیاسی دھڑے کنٹرول لائن کے پار کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پرتڑپتے ہیں۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے سردار عبدلقیوم خان نے پہلی گولی چلاکر جہاد کشمیر کا آغاز کیا۔ان کے فرزند بلند مقام سردار عتیق احمد خان شرح صدر کے ساتھ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔سردار غلام عباس ہوں یاسردار ابراہیم، ہر کوئی کشمیر کی آزادی کے لیے آخری سانس اورآخری گولی تک کوشاں نظرآئے۔ کشمیری دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ،عالم عرب میں، یورپ میں، امریکہ میں، آپس میں ان کی دھڑے بندیاں ضرور ہیں لیکن کشمیر کوآزاددیکھنے کی آرزو ان کے دل میں مچل رہی ہے۔
سمیع اللہ بھٹی نے اٹھتے ہوئے کہا کہ  وہ دن دور نہیں جب کشمیہر کی شہہ رگ قائد اعظم کے حکم کے مطابق محفوظ نہیں ہو جاتی۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن