اوپن بیلٹ سے سینٹ الیکشن: قومی اسمبلی میں حکومتی بل پیش، اپوزیشن کا ہنگامہ

اسلام آباد (نامہ نگار) حکومت نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بل ایوان میں پیش کیا۔ جہاں اپوزیشن نے مخالفت کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔ اپوزیشن کی جانب سے شدید ہلڑ بازی اور ہنگامہ کے دوران ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھالی گئیں۔ شدید ہنگامہ آرائی کے بعد سپیکر نے اجلاس آج دن گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا۔ اپوزیشن ارکان نے ہنگامہ کیا، ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، اپوزیشن کی طرف سے تین دفعہ کورم کی نشاندہی کی گئی لیکن کورم پورا نکلا اور اپوزیشن کو سبکی کا سامنا کر نا پڑا۔ بل پیش کرنے پر  اپوزیشن  ارکان نے شدید نعرے بازی کی اور ڈیسک بجا کر احتجاج کیا۔ وزیر قانون  نے کہا کہ سینٹ میں انتخابات اوپن بیلٹ سے ہونے چاہئیں، آئین میں ترمیم کرنا آئین شکنی ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم آئین میں ترمیم کررہے ہیں الیکشن چوری نہیں کررہے۔ وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے تقریر کے دوران تنقید پر اپوزیشن ارکان نے شدید شور شرابہ کیا اور اجلاس میں وقفہ لیا گیا۔ اپوزیشن کے شور کے باعث مراد سعید اپنی تقریر جاری نہیں رکھ سکے۔ جبکہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی کوششوں کے باوجود اپوزیشن  ارکان خاموش نہیں رہے۔ مراد سعید نے  کہا کہ پی آئی اے اور سٹیل مل کے حوالے سے بات کی گئی۔ اگر یہ ادارے دونوں اتنے اچھے تھے تو ان کے دور میں ان کے وزیر خزانہ یہ بیان نہ دیتے کہ پی آئی اے خریدنے والے کو سٹیل مل مفت دیا جاتا۔ پاکستان پوسٹ کی بات کی جبکہ پاکستان پوسٹ میں 62ارب کا خسارہ یہ چھوڑ کر گئے اور جو نکتہ اٹھایا گیا ہے اس پر میں قرارداد بھی پیش کروں گا جبکہ اپوزیشن مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہاں پروڈکشن آرڈر کا رونا رویا گیا اورکہتے ہیں کہ خواجہ آصف جیل میں ہے تو کیا یہ ایوان خواجہ آصف کی رہائی کے لیے ہے، دوسرے نے قبضہ مافیا کی بات کی، 36افراد کی فہرست ہے، ملک پر اور ملک کے اثاثوں پر قبضہ کیا گیا۔ لیڈرز کا حکم آتا ہے تو یہ شور شروع کر دیتے ہیں۔ میں جس کو سنانا چاہتا ہوں وہ شور کر رہے ہیں لیکن میں عوام کو سنائوں گا۔ براڈ شیٹ پر بڑا شور سنا تھا اور اس میں بھی ثابت ہوا کہ ان کے لیڈر نے جس طرح دیگر چیزوں میں ملک لوٹا تھا مزید ان کے کیسز سامنے آگئے۔ پارٹی کی اپنی رسیدیں اس لیے جمع نہیں کرا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے منی لانڈرنگ، چوری، کرپشن اورکک بیکس کے لیے پارٹی کا اکاؤنٹ استعمال کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سینٹ میں جس طرح پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے اور ارکان صوبائی اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہو، یہ غلط کام ہے۔ یہاں اچھے  ارکان اسمبلی میرٹ پر ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان کی بھی توہین کرتے ہیں کیونکہ ہر سینٹ الیکشن کے بعد کہا جاتا ہے کہ ارکان صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بک گئے، اس سلسلے کو بند کر دینا چاہیے۔ اسی کے لیے قانون سازی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں پر اوپن بیلٹ ہو، سب کے سامنے ووٹ دیا جائے اور چھانگا مانگا کی سیاست کو دفن کیا جائے۔ یہ اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیڈرز کرپشن کے لئے ان انتخابات میں استعمال کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جو ابھی بات کر رہے ہیں وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ استعفی منہ پر ماریں گے۔ انہوں نے کہا استعفی دینا تھا اور آج یہاں بیٹھے ہوئے۔ انہوں نے کہا تھا31 جنوری کے بعد حکومت چلی جائے گی لیکن آج یہاں آکر اسمبلی میں بیٹھ گئے۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ استعفے دینے کی ان کی ہمت ہی نہیں ہے۔ اگر اتنی بہادری ہے تو باہر سے واپس آکر مقدمات کا سامنا کرو۔ باہر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور دشمن کے بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم دیکھ لے یہ منظر! انہوں نے 20،20منٹ کی تقریر جھاڑ کر یہاں، جس کو اپنے غلام سمجھتے ہیں، ان کو کھڑا کیا کہ شور مچانا شروع کردے تاکہ ان کے سوالات کا جواب نہ پہنچے۔ اس ایوان کو صرف پروڈکشن آرڈر، قبضہ مافیا کے تحفظ، پاناما، براڈ شیٹ اور اس میں آئی چوری کو بچانے، جو آئینی ترمیم پاکستان کے حق میں آرہی ہے اس کو بچانے کے لیے استعمال کریں لیکن یہ ایوان اس کے لیے نہیں ہے بلکہ عوام کے ہر مسئلے کے حل کے لیے استعمال ہونا چاہئے۔ ایوان ان کی مرضی کے مطابق اس طرح نہیں چلے سکتا، یہاں مک مکا نہیں چلے گا۔ یہ اپنی تقریر کر کے مک مکا کریں گے۔ سپیکر کے پاس جائیں گے یا شاہ صاحب کے پاس جائیں گے اور آپس میں بیٹھ جائیں گے تو ایسے نہیں چلے گا۔ میں یہاں مک مکا کرنے نہیں آیا۔ یہ تین دن تک شور مچائیں لیکن میں اپنی بات پوری کروں گا۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر چلاتے ہیں۔ ہمیں بھی عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔  انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہاں بات کرنے کا ہمیں موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی پر شدید تحفظات ہیں۔ اپوزیشن کے پاس حکومت سے زیادہ ووٹوں کا مینڈیٹ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارروائی دستور اور قواعد کے مطابق چلائی جائے۔ حکومت چلانے کے لئے صبر اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنی کردار کشی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہیں کارروائی میں ہماری پارٹی کے تناسب سے حصہ نہیں دیا گیا۔ ہمیں ایوان میں بولنے نہیں دیا جاتا۔ نیب زیر تکمیل منصوبوں کی تحقیقات کر رہا ہے جو درست نہیں ہے۔ سپیکر نے شور شرابے کے باعث اجلاس میں وقفہ لیا جبکہ اپوزیشن مسلسل جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگاتے رہے۔ وقفہ سوالات میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آبا میں 2020 میں جرائم کی شرح سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کرادیا، جس میں دعوی کیا گیا کہ وفاقی پولیس کے اقدامات کی وجہ سے جرائم کی شرح میں کمی آئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے سپیکر ڈائس کے گرد جمع ہوکر دستور 26ویں ترمیم بل 2020کی شدید مخالفت کی اور احتجاج کیا۔ اسد قیصر کے بار بار کہنے کے باوجود اپوزیشن ارکان نے دستور میں ترمیم پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مسلم لیگ (ن)کی طرف سے ایوان کی کارروائی میں حصہ نہ ملنے پر احسن اقبال کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ میرٹ کا خیال رکھا ہے اور تمام جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کئے ہیں۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ نئے سیکٹرز کھولنے سے قبل موجودہ سیکٹروں کے بقیہ کام مکمل کئے جائیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سات مختلف مقامات سے بارڈر ملتے ہیں چمن اور طورخم بڑے بارڈر ہیں۔ ماہانہ ساڑھے چار لاکھ لوگ پیدل بارڈر کراس کرتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ 83 فیصد بارڈر پر باڑ لگائی جاچکی ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر42 فیصد باڑ مکمل ہو چکی ہے جبکہ جولائی تک پورے بارڈر پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے سپیکر سے استدعا کی کہ وہ پاک افغان بارڈر پر تجارت چھ روز کرنے کی رولنگ دیں جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ پاک افغان بارڈر پر تجارت ہفتے میں 6 روز کے لئے ہونی چاہیے جبکہ ایک روز چھٹی کی جائے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...