سانحہ مری …اللہ تعالیٰ ہمیں ہر آفت سے محفوظ رکھے

Feb 04, 2022

سات اور آٹھ جنوری2022کی درمیانی شب کو ملکہ کوہسار میں جو المناک حادثہ پیش آیا وہ   ہر کسی کو دکھی کر گیا ۔ مری کی اس کربناک رات کا تصور تو کیا جا سکتا ہے مگر دل کو دہلا دینے والی ہلاکت  خیز شب کی روداد تو وہی بہتر جانتے ہیں جو وہاں شب اسیر تھے جو لوگ اس آفت میں اپنی زندگیاں کھو کربیٹھے ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور خیریت سے گھروں میں واپس پہنچ جانے والوں کے لیے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور نہیں ہر آفت سے محفوظ رکھے ۔ آمین ہمیں جونہی اس ناگہانی سانحہ کا پتہ چلا تو ہم نے پہلی فرصت ہی میں اپنے دوست سردرار امجد صاحب کو فون کرنے کی کوشش کی جو کہ کمپنی باغ کے قریب ہلاٹھ گائوں میں رہتے ہیں۔ ان کے چھوٹی بھائی سردارعابد اور پھوپھی زاد بھائی ارشاد عباسی کے نمبر بھی موجود نہ تھے ۔ سب نظریں محض سرکار کو گھور رہی تھی حالانکہ یہ سب کچھ ایک ناگہانی آفت کے نتیجہ میں واقع ہوا ہے اس میں انتظامیہ کا کیا قصور ۔ کچھ بے خبروں کی اہلیان مری پر بلا جواز ااور جھوٹی تنقید نے مری کے ہمدرد ، با وصف اور حسین لوگوں کو افسردہ کر دیا۔ ان کے دل بوجھل ہو گئے اس رات تو مری کے سینکڑوں گھر ایثار اور مہمان نوازی کی عظیم اسلامی روایات کو دہرا رہے تھے بعض گھروں نے تو پچاس افراد کو دلوں میں سمو لیا تھا اور کھانے پینے کی جو چیز بھی موجود تھی پیش کر دی رات بھر آگ جلا کرمہمانوں کو گرم رکھا ۔ ہم اس کالم کے ذریعے اہلیان مری سے ان کی دل آزاری پر شرمندہ ہیں اور معذرت پیش کرتے ہیں لوگ برفباری کو کھیل سمجھ بیٹھے تھے مگر یہ کھیل نہیںیہ تو بہت بڑی آفت ہے جو اپنے اندر بے پناہ مشکلات اور تکالیف لیے ہوئے ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے والدین اور بڑے ہمیں بارش میں باہر جانے سے روکتے تھے کہ موسم خراب ہے خبردار باہر نہ جانا بارش ہو رہی بلاشبہ پہاڑوں کے لوگ سخت جان ہوتے ہیں مگردل پھول کی پنکھڑی سے بھی زیادہ نرم اور خوبصورت مگر ان لوگوں کو بے پناہ مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب برف باری ہوتی ہے تو ان کی مشکلات دو چند ہو جاتی ہیں۔ خوراک ، ایندھن  اور پانی کا حصول تو ہوتا ہی تکلیف دہ ہے مگر نقل و حرکت بھی پریشان کن صورت اختیار کر جاتی ہے الغرض پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی بے حد دشوار ہوتی ہے اگر ان تمام حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو پھر برف باری میں اپنے پر آسائش گھروں اور علاقوں سے نکل کر معصوم بچوں کے ساتھ دشوار علاقوں میں جانے کو کیا کہیں گے ؟ ایک دقت تھا کہ سردیوں میں یعنی برف باری کے موسم میں لوگ گھروں میں بیٹھ کر اپنی اور بچوں کی حفاظت کو سوچتے تھے ان علاقوں میں تفریح کا موسم صرف اور صرف گرم تھا ملکہ کوہسار میں گرما کی سیر بہت دلنشین ہوتی تھی مگر سردیوں میں یہ ویرانے کا منظر پیش کرتی تھی اب پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے یہ غور و فکر کرتے ہی نہیں یو لگتا ہے کہ جیسے سرکشی عود کر آئی ہے خراب موسم میں سیر نہیں کی جاتی ۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ بارش ہو رہی ہے اور کوئی اپنے خاندان والوں سے کہ رہا ہو کہ آئیں سیر کر چلیں تو جواب نفی میں ہی ہو گا ۔ یقینا بارش اللہ کی رحمت ہے مگر انسان اسے گلے نہیں لگاتا بلکہ بارش میں تو پناہ ڈھونڈتا ہے حالانکہ پانی کی فطرت نیچے کی جانب بہنا ہے اس کے بر عکس برف جہاں گرتی ہے وہاں پر ڈھیر کی صورت اختیار کر تی جاتی ہے اور جاندار اس میں دب گیا وہ آفت کا شکار ہو گیا ۔ پھر اس آفت میں سرد ینا کہاں کی دانشمندی ہے اب نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے کہ مری کو سیاحتی ضلع بنایا جا رہا ہے جو کہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے اور اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اندوھناک واقع سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے ویسے بھی سیاحت پاکستان کی بنیادی صنعت بالکل بھی نہیں ہے اس سے آپ عوام کو خوشحالی نہیں دے سکتے پاکستان کی بنیادی اور اہم ترین صنعت تو زراعت ہے جو کہ رُبہ زوال ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ مری کا سیاحتی مقام چھوٹا ہے اور یہ ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کو مختصر وقت میں با آسانی سنبھالنے سے قاصر ہے لہذا مری کے باشندوں پر رحم کیا جائے کیو نکہ باہر آنے والوں کی زیادہ تعداد مقامی لوگوں کی معمولات زندگی شدیدمتاثر کرنے کا باعث بنتا ہے رہ گئی بات ہوٹلوں کی تو ان کے بند ہونے سے پاکستان کو کوئی نقصان نہں ہو گا  البتہ عوام کو سکھ کا سانس نصیب ضرور ہو گا اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ انسانیت صرف انسان میں ہوتی ہے دیگر کسی شے میں ں ۔ یہاں مری میں سیر کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرنا چاہیں گے لوگوں کے فضل محمود  کا نام تو سن رکھا ہو گا بالخصوص کرکٹ کے شائقین اس نام سے بخوبی واق ہونگے ۔ فضل محمود نے ا پنی زندگی کا ایک واقعہ کچھ یوں سنایا کہ 1956کی بات ہے وہ گرمیوں میں مری آئے مقصد یہ تھا کہ ٹھنڈے موسم میں بائولنگ کی خوب مشق کریں کیونکہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹین نے رچی بینو کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آنا تھا اور اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں پہلا ٹیسٹ کھیلا جانا تھا فضل محمود کہتے ہیں کہ ایک دن ( ستمبر ) جب میں پریکٹس کرنے کے بعد شام کو ہوٹل پہنچا تو منیجر نے مجھ سے کہا کہ جناب اب تو ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے لہذا مری میں سیر و تفریح کو موسم بھی ختم ہو گیا ہے اور پھر ویسے بھی آپ کے پسندیدہ سلاد کھیرے کا موسم بھی گزر گیا ہے یہ سن کر میں نے کہا کہ آپ میرا بل بنا دیں میں کل ہی روانہ ہو جائوں گا  اگلے ر وز میں سامان کے ساتھ میجر کے پاس پہنچا  تا کہ ادائیگی کر دوں لیکن منیجر نے کہ کہ آپ میرے ساتھ ایک معاملہ طے کر لیں ابھی بل ادا نہ کریں میں نے پوچھا کہ آپ معاملہ تو بتائیں اس پر منیجر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان آ رہی ہے اگر آپ نے آسٹریلیا کی ٹیم کو سورنز سے پہلے آوٹ کر دیا تو آپ کا بل میرے ذمہ اور اگر آوٹ نہ کر سکے تو پھر بل بھیج دیجیے گا۔ بات طے ہوئی کراچی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی ٹیم پہلی اننگ کھلینے میدان میں اتری تو فضل محمود اور خان محمد کی یادگار جوڑی نے آسٹریلین بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر دیا اور آسٹریلیا کی ٹیم محض اسی رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ فضل محمود اور خان محمد کی شاندار کارکردگی کچھ اس طرح سے تھی فضل محمود 27اور ز 11میڈن 34رنز 6وکٹ اور خان محمد 26.1اوورز 9میڈن 43رنز4وکٹ ( بعدا زاں پاکتان نے 9وکٹ سے میچ جیت لیا) فضل محمود کہتے ہیں کہ شام کو جب ہوٹل پہنچا تو میرے نام مری سے تار آیا تھا ۔ یہ تار مری والے ہوٹل کے منیجر کا تھا تار میں ایک ہی جملہ لکھا ہوا تھا آپ کا بل ادا ہو گیا ہے اس واقع سے ہمیں یہ سب ملا کہ پہاڑوں پر سیر و تفریح کو موسم توگرمیوں کو ہوتا ہے اس لئے جب بھی جائو تو اچھے موسم میں اور برف باری میں کبھی نہ جائو کہ برف باری تو ایک آفت ہے اور آفت سے بچنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ 

مزیدخبریں