تعلیم کیا  ہے؟  تعلیم کو بامقصد بنانے کی ضرورت  ( 2)

Feb 04, 2022

وضع قطع کیسی ہے۔ یہ کیسا لباس پہنتے ہیں۔ کیسی زبان بولتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کے ادب و آداب پر کتنا عمل کرتے ہیں۔طرز ِبودوباش میں کتنے صاف ستھرے  اور منظم ہیں۔کردار کے کیسے بن رہے ہیں۔ کیا سچائی ، ایمانداری، وعدہ وفائی ، رواداری ، اخلاق و شائستگی ، سحر خیزی ، جیسی خوبیاں سٹوڈنٹس میں پیدا کرنے پر بھی کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ کیا تعلیمی عمل کے نتیجہ میں یہ سب تبدیلیاں بچوں میں آتی ہیں یا نہیں او رکیا اس حوالے سے ہمارا نام نہاد تعلیمی عمل بچوں کی شخصیت میں روز بروز نکھار پیدا کرتاچلا جارہا ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ( اور یقینا نہیں ) تو پھر ذرا رْک کر سوچئے کہ ہم تعلیم کس کو کہہ رہے ہیں؟روزانہ سکول و کالج جانا اور دوپہر تک واپس آنا تعلیم ہے؟ صرف پڑھنے لکھنے کی صلاحیت حاصل ہوجانا تعلیم ہے؟ سند، ڈپلومہ یا ڈگری کا حاصل کرلینا تعلیم ہے؟ کم از کم ہم نے تو ان ہی چیزوں کو تعلیم سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکول ، کالج اور یونیورسٹی جانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، مردم شماری میں خواندگی کا تناسب بھی بہتر ہورہاہے۔ اور سندیں ، ڈپلومے ، اور ڈگریاں بھی لوگ لیے لیے پھر تے ہیں۔مگر افسوس معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد روزبروز کم ہوتے جارہے ہیں۔ اپنی وضع قطع اور تراش خراش سے مہذب اور معزز دکھائی دینے والے تعلیم یافتہ لوگ ، زبان وبیان پر قدرت رکھنے والے تعلیم یافتہ لوگ ، طرزِ بودباش میں صفائی ستھرائی اور نظم وضبط کا مظاہر ہ کرنے والے تعلیم یافتہ لوگ، سچے ، ایماندار ، روادار، وعدہ وفا کرنے والے تعلیم یافتہ لوگ اعلی صلاحیت اور استعداد ِکار کے حامل تعلیم یافتہ لوگ اور ہر طرح کی غلامیوں سے آزاد تعلیم یافتہ لوگ،مقام افسوس ہے 
یہ صورتیں ا لٰہی کس دیس بستیاں  ہیں 
 اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں 
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کو یہ شعور و ادراک دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کے ذہنوں میں مذکورہ بالاتبدیلیاں پیداکرنے کے لیے انھیں سکول و کالج و یونیورسٹی بھیجیں اور پھر وہ مسلسل نظر رکھیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں اْن کے بچوں میں پیدا ہو بھی رہی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ ارباب ِمدرسہ و مکتب سے جاکر سوال کریں۔ نیز اساتذہ کو بھی اس ضمن میں آگاہی دلائی جائے کہ اْن کا کردار صرف نصاب کی کتابیں پڑھانے تک ہی محدود نہیں ۔اس سے بہت بلند تر مقاصد بھی ہیں۔ اِس طرح تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بھی اداروں کے اندر تعلیمی سرگرمیاں یوں ترتیب دینی چاہیں کہ سٹوڈنٹس میں رفتہ رفتہ مذکورہ بالا تمام تبدیلیاں پیدا ہوجائیں ۔ نصابی کتب کی تیاری میں بھی ان تبدیلیوں کومدنظر رکھنا ہوگا۔(ختم شد)

مزیدخبریں